Ramadan Reflections

میں جب بھی کسی توجہ طلب مسئلے یا موضوع پہ بات کرتی ہوں یا لکھنے کا قصد کرتی ہوں میرے ذہن میں پہلا خیال اس موضوع کے متعلق میرے اپنے رویئے کے بارے میں آتا ہے کہ جو میں کہنے جا رہی ہوں کہ نہیں کرنا چاہیے یہ میں نے خود اپنی زندگی میں کس کس مقام پہ کہاں کہاں کیا ہے۔

n

کوئی ایسا جملہ جس سے کسی کی دل آزاری کا خدشہ تھا اور زبان سے پھسل گیا، کوئی ایسا رویہ جو مخصوس وقت میں کسی کے ساتھ نہیں اپنانا چاہیے تھا لیکن اپنایا گیا، کوئی ایسا انداز جس سے کوئی عام سی بات کی گئی لیکن دوسرے کے لیے شاید آزار کا سبب بنی ہو اور شرمندگی اسوقت ہوتی ہے جب واقعی یہ ساری باتیں زندگی کے مختلف ادوار اور اس سفر میں گزرے راستوں کے پہ کہیں کہیں مل بھی جاتی ہیں۔

n

پھر یہ خیال آتا ہے تو کیا بات نہیں کرنی چاہیے؟nکہ جب ہم کسی وقت کسی منفیت کا شکار ہو چُکے ہوں تو اس سے بچنے کی تلقین اور پرچار تو نہیں بنتا لیکن پھر دل ہزار تاویلیں لا کھڑی کرتا ہے۔

n

اگر کسی مقام پہ اندھیرے میں اپنے قدم لڑکھڑائے تو نئے آنے والوں کو تو چراغ دکھانا ضروری ہے ،پھر اسوقت شاید میں سیکھنے کے عمل میں تھی، میری عمر اور تجربہ کم تھا، میں لوگوں کو جاننے کے عمل سے گزر رہی تھی، مزاج پرکھنا، بات کو تولنا، رویوں کی پہچان تو ہوتے ہوتے ہوتی ہے، میرا علم کم تھا ، میری سوچ کا زاویہ مختلف تھا، میں دوسروں کے زیرِ اثر تھی یا شاید اسوقت مجھے یوں کسی نے نہیں سمجھایا یا مجھے کوئی ایسی راہ نہ مل سکی جہاں سے یہ چھوٹی چھوٹی باتیں سیکھی جا سکتیں، یا فلاں وقت کہی گئی اس بات کے پیچھے کوئی خاص مقصد نہیں تھا بس کسی اور وجہ سے کڑواہٹ گھل گئی اور اصل بات تو یہ ہے کہ اب کیا کرنا ہے؟اب احساس کرنا ہے کہ وہ رویئے نہ دہرائے جائیں، اپنی بہتری پہ توجہ دی جائے وغیرہ وغیرہ

n

الغرضط ایسے موقعوں پہ ہمارے دل و دماغ اپنے حق میں ہزار گواہیاں پیش کر دیتے ہیں اور ایسا ہم سب کے ساتھ ہوتا ہے۔

n

پھر ایک خوبصورت خیال آتا ہے جس سے ذات کے جگنوؤں کو روشنی ملتی ہے۔۔

n

تو پھر انکا کیا جنہوں نے آپ کے ساتھ یہ سب رویئے اپنائے؟nجو دل آزاری کی باتیں ہمارے راستے میں آئیں، کسی کا نیچا دکھانے کے لیے نظر انداز کرنا، کبھی دانستہ دل آزاری، کبھی بلا وجہ لہجوں کی کڑواہٹ, کبھی شخصیت کی نفی، کبھی تنقید ، کبھی ذات کی قبولیت سے انکار اور کبھی توہین آمیز رویہ،

n

ایسے میں کیا ہمیں اسی طرح نہیں سوچنا چاہیے؟

n

ہو سکتا ہے اسوقت وہ لوگ،وہ انسان نادان ہو, ہو سکتا ہے اسوقت اُسکی سوچ میں وہ پختگی اور وہ سمجھداری نہ ہو، ہو سکتا ہے وہ اندر ہی اندر کسی اور تکلیف سے گزر رہا ہو جو دوسرے نہ سمجھ سکتے ہوں اور غیر ارادی طور پہ منفیت برت بیٹھا ہو، ہوسکتا ہے وہ بھی ہماری طرح یہی سوچ کے نادم ہوتا ہو کہ کاش اسوقت سوچ کا انداز بہتر ہوتا یا رویوں،انسانوں اور خاص کر اپنی پہچان ہوتی تو ایسا نہ ہوا ہوتا۔

n

یہ وہ سوچ ہے جو گھوم پھر کے ہمیں دوبارہ اپنی ذات کے کٹہرے میں لا کھڑی کرتی ہے۔nجیسے ہم اپنی کی ہوئی باتوں اور رویوں پہ بہُت سی تاویلیں دے کر خود کو معاف کرنے پہ راضی ہوجاتے ہیں تو کیا اُسی طرح سے دوسروں کو بھی اپنے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں پہ اس بات کا مارجن دے سکتے ہیں؟

n

وقت کے ساتھ تو ہم سب کے رویے ،سوچ اور نظریات بدلتے ہیں ہم اکثر پرانی باتوں کو سوچ کے اپنا محاسبہ کرتے ہیں، اگر اندر مثبت سوچ اور اپنے آپ کو بہتر بنانے کی لگن ہو تو خود کو ملامت بھی کرتے ہیں اور آئندہ احتیاط کی تلقین بھی تو پھر جب ہم اپنی ذات کو مارجن دینے اور معاف کر دینے کو حق بجانب سمجھتے ہیں تو دوسروں کے لیے ایسا کیوں نہیں سوچتے؟

n

اگر ہمارے پاس اپنی غلطیوں کے لیے گنجائش ہے تو دوسروں کے لیے کیوں نہیں؟

n

کیا ہم یہی تاویلیں دے کر دوسروں کو معاف نہیں کر سکتے؟

n

معاف کر دیجئے، در گزر اللّٰہ تعالیٰ کو پسند ہے۔

n

#RamadanThoughts

(Visited 1 times, 1 visits today)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *