پکوڑا کہانیnتحریر: قرۃ العین صبا
n
چھ روزے گزر چکے تھے لیکن “پکوڑے” تھے کہ صحیح بن کے نہیں دے رہے تھے، پتہ نہیں کیا افتاد پڑ گئی تھی۔ بیسن کا تناسب بھی کم زیادہ کر کے دیکھ لیا ، کبھی سبزی کم کبھی آلو باریک ،تو کبھی بیکنگ پاؤڈر کم زیادہ لیکن پکوڑوں نے پھولنے اور کرسپی ہونے سے بلکل انکار کر دیا تھا۔پھر خیال آیا ہو سکتا ہے ہم ہیلتھ کانشس ہونے کے چکر میں ڈیپ فرائی کرنے میں ڈنڈی مار رہے ہوں تو ایک دن تیل میں نا ہنجا روں پورا ہی غوطہ دے دیا لیکن نتیجہ وہی دھاک کے تین پات۔nاس قدر عاجز پکوڑے کہ بس بچھے ہی جاتے تھے صاف کہیں تو بلکل فلیٹ، پکوڑوں والی تو جیسے کوئی خصوصیت ہی نہیں۔
n
اِدھر میاں سے افطار کا پوچھو تو بڑے چاؤ سے کہتے کہ کچھ بناؤ نہ بناؤ بس دو چار پیاز کے پکوڑے ضرور بنا لینا ۔اگرچہ یہ اچھی بات ہے کہ کھانے کی میز پہ زبان سے کسی چیز کے ذائقے اور ہیئت پہ تنقید نہیں کرتے لیکن کیونکہ رمضان میں پکوڑے پاکستانی مردوں کی دُکھتی رگ ہیں تو کھاتے ہوئے خوشی اور اکسائٹمنٹ بھی چہروں پہ گویا زبان پہ پکوڑوں کا ذائقہ اترتے ہی خود بہ خود امڈ آتی ہے جو کہ اس بار ندارد تھی۔
n
آخر مسئلہ کیا ہے، کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا ۔ہم نے تو رمضان شروع ہونے سے پہلے ہی اپنے تئیں بڑے سگھڑاپے کا کام کیا تھا کہ جو بیسن عام دِنوں میں کم کم استعمال ہوتا ہے اُسے کچن کے اندرونی کیبنیٹ سے نکال کے جار میں بھر کے سامنے سجا دیا تھا کہ پکوڑے تو روز ہی بنیں گے لیکن ہفتہ ہونے کو آیا ان پکوڑوں نے تو سچ میں اب ناک میں دم ہی کر دیا تھا۔
n
دل ہی دل میں ضمیرِ کی آواز بھی کسی سخت تنقید نگار قسم کی ساس کی طرح بیچین اور بے قرار کیے جاتی تھی کہ لو بھئی، ہر ہفتے فوڈ فرائیڈے مناتی ہیں ،طرح طرح کی ترکیبیں دوسروں کو سکھاتی ہیں اور تو اور یو ٹیوب پہ ” کھانے کا خیال” بھی کھول کے بیٹھ گئیں لیکن حال یہ ہے پکوڑے تک ڈھنکے بنانے نہیں آتے، کیا فائدہ اتنی ڈرامے بازی کا۔
n
ہم نے اگلے دن پھر ہمت کری۔ بڑی نک تک سے سبزیاں باریک باریک کاٹیں، بیسن کو ایک بار پھر ناپ تول کے ملایا، سارے ضروری لوازمات شامل کیے ،آمیزہ نہ زیادہ گاڑھا نہ زیادہ پتلا ،بیکنگ پاؤڈر کی مقدار بھی بڑھا دی کہ آج تو بس پھولنا ہی پھولنا ہے۔اتنی توجہ تو کبھی اپنی تیاری پہ نہ دی ہوگی جتنا فوکس آج پکوڑوں کو حاصل تھا لیکن تیل میں غوطہ دیتے وقت ہی اندازہ ہو گیا کہ آج بھی کوئی خاص امپرومنٹ نہیں ہے بس تھوڑی بہتری یہ آئی کہ پتلے بیسن اور باریک کٹی سبزیوں کی بدولت وہ تھوڑے سے اکڑ گئے یا کرسپ آ گیا۔
n
افطار کے بعد ہم نے بڑی اُمید سے میاں صاحب کو دیکھا ، آج تو صحیح بن گئے؟انہوں نے اثبات میں گویا بادل ناخواستہ گردن تو ہلا دی لیکن ماشااللہ اٹھارہ سال کی رفاقت کے بعد فریقین کا وہ حساب ہو ہی جاتا ہے کہ بقول حمایت علی شاعر
n
میں کچھ بھی نہ کہوں اور یہ چاہوں کہ میری باتnخوشبو کی طرح اڑھ کر تیرے دل میں اتر جائے
n
اور جب بات پیاز کے پکوڑوں کی ہو جسکی حساسیت سے ہم بخوبی واقف ہیں تو سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ پکوڑے آج بھی اپنا تاثر بنانے میں ناکام رہے ہیں۔
n
آخر مسئلہ کیا ہے، یہ پکوڑے تو اب ہمیں ڈپریشن کی طرف دھکیل رہے تھے، ساتھ میں یہ بھی قلق کے بیس اکیس سالہ امورِ خانہ داری کا تجربہ اور کوئی سراغ نہیں؟ ہم پھر سوچ میں غرق ہو گئے اورجا کے کیبنیٹ کھول کے بیسن کا ایک بار پھر جائزہ لیا۔nپھر جیسے دماغ میں ایک جھماکا سا ہوا اور ایک میکانیکیnانداز میں ہم نے اندرونی کیبنیٹ میں سے وہ ڈبہ نکالا جس میں میدہ اور بیسن قسم کی چیزیں رکھی جاتی تھیں ،اس میں سے سے بیسن کی برانڈ نیو تھیلی برآمد ہوئی اب ہم کبھی اسکو اور کبھی اپنے بیسن کے جار کو دیکھتے ہیں کی عملی تصویر تھے۔
n
“تیجا میں ہوں مارک ادھر ہے” ہمیں اپنے بچپن کی سدا بہار فلم کا ڈائلاگ یاد آیا۔
n
جب بیسن یہ ہے تو جار میں ہم نے کیا بھرا تھا؟nاب سرے ملے تو ساری کہانی سمجھ آئی۔ہم نے جار میں بیسن کے دھوکے میں “کارن اسٹارچ” بھر دیا تھا جو ہو بہو تيجا تھا یعنی بیسن کی شکل تھا۔
n
بلی تھیلے سے باہر آ گئی تھی، بیسن ہوتا تو پکوڑے بنتے، ہم چھے دن سے مکئی کے آٹے کے پکوڑے بنا رہے تھے،خود کو ملامت کی کہ صرف صورت پہ نہیں جانا چاہیے اپنی پندرہ سولہ جماعتوں کی لاج رکھتے ہوئے آنکھیں کھول کے لیبل بھی پڑھ لیتے تو اتنی اُلجھن سے بچ جاتے ۔
n
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اگلے دن افطار پہ میاں کے چہرے پہ پکوڑوں کی رونق واپس آگئی تھی اور گرما گرم پھلتے پھولتے کرسپی پکوڑوں کی بدولت ہم افطار کے دسترخوان کا ایک رکن الحَمدُ للّہ پورا کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔nامید ہے قیامت کے دن یہ پکوڑے رمضان میں مسرت بکھیرنے کے اجر میں ہماری نجات کا باعث ہوں گے انشاءاللہ n*nہماری زندگیوں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کچھ لوگ دراصل “مکئی کا آٹا” ہوتے ہیں اور ہم اُنہیں بیسن سمجھ کے ساری عمر پکوڑے بنانے کی کوشش میں ہلکان ہوتے رہتے ہیں(ہا ہا ہا، حیران نہ ہوں بس میں نے سوچا آخر میں یونہی کچھ کالم نگاروں کی طرح ایویں تحریر پہ موٹیویشن اسپیکروں والا تڑکہ لگا کر اسکو بھی رمضان رفلکشنز میں شامل کر لیا جائے )