جب طوفان گزر جاتا ہے اور آپ مستقل متحرک رہنے کے بعد بیٹھتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ کتنا تھک گئے۔nتھے تو صرف چند دن ہی لیکن جیسے صدیاں گزر گئیں، مشکل میں آدمی زماں و مکاں سے نے نیاز ہو جاتا ہے۔نہ دن یاد نہ تاریخ لیکن شکر ہے وقت خیر سے گزر گیا۔
n
لوگ کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ پہ دکھ تکلیفیں، بیماریاں، پریشانیاں کیوں بتائیں، میں سوچتی ہوں کہ جب زندگی کے تجربات شئر کرتے ہیں تو صرف خوشی ہی کیوں دوسرا رخ بھی تو زندگی کا ایک اٹوٹ انگ ہے اور سب سے بڑھ کر حقیقت ہے۔
n
مجھے نہیں پتہ کہ کیوں کہا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا کی دنیا میں سب جھوٹ ہے،میرا خیال ہے یہاں پہ سب کچھ بس اتنا ہی جھوٹ اور فیک ہے جتنے کہ آپ خود فیک ہیں ورنہ بہترے ہی ایسے لوگ ہیں کہ جنکو نہ میں جانتی ہوں اور نہ کبھی ملی ہوں، تصویر تک نہیں دیکھی لیکن یوں دل پہ آہستگی سے ہاتھ رکھتے ہیں کہ آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔n”سنیے میں نے آپ کے لیے تہجّد میں دعا کی”n”آپ مستقل ہمارے دھیان میں ہیں فکر نہ کریں”n، صدقہ دے دیا آپ نے؟ نفل پڑھ لیںn”آپ کو نظر لگ گئی تصویریں نہ ڈالا کریں”n”کھانا افطاری بھیج دوں؟”n”آپ اکیلی تو نہیں کوئی فیملی ہے آپ کے پاس؟”n”میں اس صورتِ حال سے گزر چکی ہوں آپ پریشان نہ ہوں سب ٹھیک ہوگا انشاءاللہ”n”بچوں کو میرے پاس چھوڑ دیں”n”بائے پاس کا فوری فیصلہ مت لیجئے گا ، غذا بہتر کریں، اُنہیں کوئی اسٹریس نے دیں”
n
اور ایسے پتہ نہیں کتنے میسیجز کہ میں سب کا شاید جواب بھی نہیں دے سکیnدنیا کے مختلف خطوں میں بسے لوگ بس ایک “خیال” کے رشتے سے دعاؤں کے پھول بھیج رہے ہیںnجب ایک نام کی اتنی عرضیاں جگہ جگہ سے پہنچیں گی تو کچھ نہ کچھ فرق تو بہرحال پڑے گا ۔
n
جو رشتےدار اور دوست قریب تھے اُنہونے اپنا حق ادا کیا ،میں رات کو سو سکی تو دن میں ہسپتال میں گزارنے کے قابل رہی، پک اینڈ ڈراپس، افطاریاں، بچوں کی دیکھ بھال۔
n
“چچی میں گروسری کرنے گئی تھی تو انڈے لے آئی آپ کے لیے” ہائے یہ بچے کب اتنے بڑے ہوئے، سحری تو روز کرنی ہی ہوتی تھی لیکن گروسری کا ہوش کسے تھا۔nاللہ جزا خیر دے۔پردیس میں ایک دو ہی ہوں لیکن بھائی بہنوں کے گھر نعمت ہوتے ہیں۔
n
کس کو پتہ تھا کہ رمضان کی کہانیاں لکھتے لکھتے رخ اسپتال کی طرف ہو جائیگا۔ کبھی کبھی لگتا ہے جیسے مجھے کہانیوں کی حرص ہو گئی ہے۔اسپتال کی بھی اپنی دنیا ہوتی ہے۔ دکھ، تکلیف، اِنتظار، ازیت، منتظر چہرے، ڈاکٹرز ،نرسز، ملنے آنے والے لوگ، کھانے کے ٹفن، فون کالز ،پریشان لہجے ،سوالات، بہُت ساری بار دہرائی باتوں کو ایک بار پھر نئے سرے سی دوہرانا کیونکہ ہر چند آپ اس سے گزر چکے لیکن یہ فکر اور پریشانی میں دعا کرنے والوں کا حق ہے کہ اُنہیں باخبر رکھا جائے۔ایسے میں واٹس ایپ گروپس کافی مددگار ثابت ہوتے ۔
n
ہم تو یہ سوچ کے بھی اس واقعے کو مثبت نہیں لے سکتے کہ
n
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے nکہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
n
کیونکہ جو لوگ میاں صاحب(ہمارے والے) کی فطرت سے واقف ہیں وہ اُن کی طبیعت میں ہر لمحہ موجزن طوفان اور اضطراب کو بخوبی جانتے ہیں اُنہیں دوست احباب اور خاندان سے الگ کر کے بھی بٹھا دیا جائے تو بھی کسی راہ چلتے کو آواز دے کے اُسکا مسئلہ حل کرتے پائے جائیں گے یا پھر فون پہ کسی کی کونسلنگ کر رہے ہونگے۔ایسے لوگ معاشرے اور لوگوں کے لیے تو بہُت مفید ہوتے ہیں لیکن انجانے میں اپنا اور اپنے قریب ترین لوگوں کا بہُت نقصان کر جاتے ہیں۔ اُمید ہے یہ امتحان اُنہیں اپنی زندگی کا قدردان بنائے گا۔
n
الغرض زندگی میں ایسے جھٹکے آپ کو دراصل احساس دلانے کے لیے آتے ہیں کہ زرا رک جاؤ، تھوڑا ٹھہر جاؤ، خود سے محبت کرو ، زندگی میں آتی جاتی ہر سانس کا شکر کرو کیونکہ بھاگتی دوڑتی زندگی میں کون سوچتا ہے کہ ابھی اسپتالوں میں کتنے لوگ ہوں گے جو کسی نہ کسی امتحان سے گزر رہے ہوں گے۔nتو پھر شکر کریں، ہر اُس دن اور لمحے کا جو سکون سے گزر گیا اور ہر اُس خیر کا جو زندگی میں آج موجود ہے اور قدر کریں اپنی زندگی کی اور اپنے پیاروں کی۔
n
لکھنے کو تو بہُت سی کہانیاں ہیں لیکن ابھی اُلجھی ہوئی اور گڈ مڈ ہیں ذرا ذہن اور دل پرسکون ہو جائیں تو ساری باتیں کرتے ہیں بس ابھی تو دل کی گہرائیوں سے آپ سب لوگوں کی محبتوں اور دعاؤں کا بے حد شکریہ اور مزید دعاؤں کی درخواست
n
اللہ تعالیٰ آپ سب کو جزا خیر عطا فرمائے۔nآمین nدعا گوnصبا اور اکمل
nnn