ہے تو بچی ہی۔عمر کی بحث کو ایک منٹ کے لیے چھوڑ دیں صرف ساتھ کھڑے لڑکے کو دیکھ لیں.n کیا آپ کو لگتا ہے کہ کوئی سمجھدار لڑکی اتنا انتہائی قدم اٹھا کر ایسا ساتھی چن سکتی ہے؟
n
ابھی تو پتہ نہیں کہانی کی کتنی پرتیں باقی ہیں لیکن جس کے لیے دنیا پلٹ دی گئی اُسکے اپنے چہرے پہ ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔ نہ کوئی امارات نظر آ رہی ہے اور نہ مضبوطی ایسے میں تحفظ کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟ وہ خود بھی بغیر تاثرات کے سپاٹ بولتی چلی جا رہی ہے جیسے الفاظ تو ہوں لیکن مفہوم کا کچھ پتہ نہیں،کسی بچی کو تقریر رٹا دی گئی ہو۔nصحیح غلط کی تو بحث ہی نہیں ساری بات کم عقلی کی ہے۔
n
بیشتر لوگوں کو چسکا چاہیے یا پھر ہنسی ٹھٹے سے فرصت نہیں۔ اِنتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ کچھ ہاتھ آئے تو ممیز بنائیں۔ ابھی خدانخواستہ اسی بچی کا حال ” زینب” کا سے ہوتا تو سارا سوشل میڈیا اُسکی تصویر کے ساتھ مغموم اشعار اور اداس میوزک لگا کے اپنے جذبات شئر کر رہا ہوتا۔nابھی دو دن پہلے جو لوگ ہمدردانہ پوسٹیں ڈال رہے تھے اب اُسکی جگہ طنز اور تمسخر نے لے لی ہے۔
n
لڑکی کو اور اُسکے ماں باپ کو لعن طعن کرتے ہوئے یا انکا مذاق بناتے ہوئے ایک منٹ کو اپنے گھروں میں بھی جھانکیں۔ ہم میں سے بیشتر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بھئی nہمارا بیٹا/بیٹی تو ایسا کبھی نہیں کر سکتا/سکتی۔
n
یہ سب سے بڑی خوش فہمی ہے۔nاولاد بہُت بڑی آزمائش ہے اور اس پہ یہ ٹین ایج گویا
n
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک بہُت ہے کام
n
ہماری نسل کے ساتھ تو ٹیکنالوجی بھی دو ہاتھ کر گئی۔nاب باؤلوں کی طرح آنلائن دوڑیں لگاتے پھرو۔پہلے میں سوچتی تھی کہ ہر وہ چیز اپنے بچوں سے پہلے سیکھی جائے جہاں اُنکے پہنچنے کا امکان ہو لیکن آپ کتنا بھاگیں گے یہاں تو ہر تھوڑے دِن بعد کچھ نیا ہے۔
n
زمانہ جس تیزی سے پچھلے بیس سالوں میں بدلا ہے اس دور کے والدین ٹیکنالوجی کے پیچھے دوڑتے دوڑتے ہلکان ہو گئے ہیں۔nہمارے بچپن میں والدین گھروں میں چیزوں اور لوگوں کی پابندی لگا کے مطمئن ہو جاتے تھے کہ رابطہ منقطع۔nٹی وی بصیرت سے شروع ہو کے فرمان الٰہی پہ ختم ہوتا تھا، ٹیلیفون ڈیمانڈ نوٹ بھرنے کے تین تین سال بعد لگا کرتا تھا وہ بھی ایک لینڈ لائن گھر کے بیچوں بیچ۔ اب کر لو بات۔
n
تو پھر کیا کریں؟nدعا زہرا اور اُسکے والدین کو بخش دیں!
n
میں دن رات بچوں اور والدین کے درمیان تنازعوں کے بارے میں سنتی ہوں۔ کہیں والدین اتنے سخت ہیں کہ سانس لینا محال ہے۔ کہیں مذہب کے نام پہ ہر تفریح پہ پابندی ہے۔ کہیں ہر ایمیل اور ہر چیٹ اکائونٹ کھنگال ڈالتے ہیں اور پھر دوستوں میں ہونے والی آپس کی گفتگو کو بھی بنیاد بنا کے اپنے اختیارات غلط استعمال کرتے ہیں۔ ایسے میں بچے اندر ہی اندر بغاوت پہ اُتر آتے ہیں اور باہر کے تھپیڑوں سے بے خبر انتہائی قدم اٹھا لیتے ہیں۔
n
دوسری انتہا بچوں کی پرائیویسی کے نام پہ بلکل کھلی آزادی ہے۔ جہاں پلٹ کے پوچھنے کی فرصت نہیں وہاں ٹین ایج میں اکیلا پن، بلينگ اور مینٹل ہیلتھ کے مسائل بے شمار ہیں۔
n
بات کریں, ہر وقت ہر موقع پر، ہر موضوع پر بات کریں۔nطنز، طعنے اور اُنکی برائیاں دوسروں کے سامنے کھول کھول کے بیزاری کا اظہار کرنے کے بجائے موقع دیکھ کے نرمی اور دوستانہ رویئے اپنائیں۔
n
اُن کے دوست بنیں، اُنکی بات سنیں۔ ابھی وہ جن باتوں پہ ہنستے ہیں وہ آپ کو بیوقوفانہ لگتی ہیں لیکن پھر بھی ہنسیں کیونکہ جب آپ اس عمر میں تھے تو آپ کو بھی بیوقوفانہ باتیں محظوظ کرتی تھیں۔ یہ مل کے ہنسنا ہنسانا اور اُنکے کاموں میں دلچسپی ظاہر کرنا آپس میں دوستی اور تعلق قائم کرتا ہے۔
n
اپنی چالیس، پچاس سال کی پختہ سوچ اور اُمیدوں کا مقابلہ اُنکی پندرہ سولہ سالہ بے فکر عمر اور سوچ سے نہ کریں، اُنہیں آپ کی پختگی تک پہنچنے کے لیے کافی وقت درکار ہے۔ اُن پہ اپنی ناتمام حسرتوں، اُمیدوں اور رشتےداروں کے بچوں سے مقابلے بازی کا بوجھ نہ ڈالیں۔
n
ہاتھ اٹھانے کا زمانہ عرصہ ہوا گزر گیا ،یہ مزید انتشار اور نفرت کی طرف پیش قدمی ہے، گالم گلوچ اور بے عزتی اسی کا کمتر ورژن ہیں۔
n
جو اُن سے کروانا چاہتے ہیں پہلے خود کر کے دکھائیں۔nآپ خود جھوٹ بولیں گے،قرآن سے دور رہیں گے، نمازوں میں ڈنڈی ماریں گے، لوگوں کے ساتھ معاملات احسن نہیں رکھیں گے تو اُن سے بھی یہ سب کرنے کی توقع نہ رکھیں۔
n
دعا کریں ،بہُت دعا کریں کیونکہ پتہ نہیں کتنے مواقع ایسے ہوتے ہیں جہاں آپ کی رسائی نا ممکن ہے اسوقت اُنہیں اللّٰہ ہی دیکھ رہا ہوتا ہے اور وہی حفاظت کر سکتا ہے۔
n
اپنی پوری کوشش کریں، اللہ کبھی بھی محنت ضائع نہیں کرتا اور اگر آس پاس کہیں کسی پہ کوئی آزمائش آن پڑی ہے تو تنقید، تضحیک اور نفرت سے بچیں کیونکہ آزمائش کسی پہ بھی آ سکتی ہے۔
n
رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا
n
ترجمہ : اے ہمارے رب! ہماری بیویوں اور ہماری اولاد سے ہمیں آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرمااور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا۔
n
آمین
n
قرۃ العین صبا