چاند رات مبارک

“امّاں آپ صبح صبح خطرناک ہوتی ہیں”

میری ہنسی چھوٹ گئی کیونکہ بات بھی سچ ہی تھی۔
اب کیا کہتی جب رات کو دیر سے سونا ہو اور پھر آدھی رات کو اٹھ کر ادھ سوئے ذہن کے ساتھ پراٹھے پکانے پڑیں اور ساتھ ساتھ بھاگ بھاگ کے سیڑھی چڑھ کے سحری کے لیے جگانے کی ڈیوٹی بھی دینا ہو اور وہ بھی کئی بار کہ سونے والوں کی نیند ٹوٹ کے نہیں دیتی( دیکھ کے سوچتی بھی ہوں کہ میری نیند بھی اس عمر میں ایسی ہی ہوا کرتی تھی بلکہ اٹھانے والے پہ شدید غصّہ آتا تھا کہ “کھا لیں گے نا کہیں بھاگی جا رہی ہے کیا سحری” یہ سوچتے بغیر کہ پکانے والے کا کیا حال ہوتا ہوگا)
دوسری طرف توے پہ چڑھے پراٹھے کی فکر کھائی جا رہی ہوتی ہے کہ کہیں جل کے کوئلہ ہی نہ ہو جائے
ایسے میں آخری لمحات میں جلدی جلدی اپنا کھانا حلق سے اتارو اور پھر کچن سمیٹے کی باری۔ ابھی دوبارہ سوئے نہیں کہ اسکول کا وقت شروع۔ہم بچے تھے تو اسکول کا وقت بھی جلدی ختم ہو جاتا تھا اور پانچ روپے میں کینٹین سے بھی کچھ مل جاتا تھا یہ اہتمام سے لنچ اور اسنیکس پیک کرنے کا رواج نہیں تھا،ادھر تو ذرا گڑ بڑ ہو بچہ کھائے نہ کھائے اسکول سے فون چلا آتا ہے کہ اسنیکس ہے لنچ نہیں ہے۔ ابھی اسکول سے فارغ ہوئے تو دو گھڑی کا سکون لیکن اگر گھر میں کوئی بزرگ یا روزہ نہ رکھنے والا ہے تو کھانے کی فکر، پھر افطار اور پھر وہی برتن پانڈے ساتھ میں جاب یا کام ہو تو سونے پہ سہاگہ ایسے میں خواتین کی صبحیں خطرناک نہ ہوں تو کیا ہوں۔

بچپن میں امیوں کو دیکھ کر سوچتے تھے کہ یہ ان کے مزاجوں میں تنک اور بیزاری کیوں آ جاتی ہے ایک سحری تو بنانی ہے ،جب خود پہ بیتی تو پتہ چلا۔

بہُت تھک گئی تو بچپن کا رمضان اور عید یاد آگئی، کیا عیاشی تھی سوئے اٹھے، بہن بھائیوں کے ساتھ چہلیں ،بیکار کی باتوں پہ بھی ہنسی آئے تو رک کے نہ دے۔ افطار کے بعد سب ٹینشن فری، بچپن میں تو ٹی وی پہ بھی سارے میوزک کے پروگرام اور ڈرامے بند ہو جاتے تھے، لے دے کے کوئز شوز یا اسلامی پروگرام۔ڈاکٹر غلام مرتضٰی صاحب کی تفسیر بھی آتی تھی اور این ٹی ایم پہ “بِسمِ اللہ کی برکت” اور “حاتم طائی” جیسی فلمیں رہ جاتی تھیں، سب ہی خاصے معصوم تھے ایک یونیورسل اصول تھا کہ رمضان کا احترام ہے۔اب بچوں کو بتاؤ تو حیرت سے دیکھتے ہیں کہ انٹرٹینمنٹ کا مطلب بلکل ہی بدل چکا ہے۔

شامیں ہر جگہ رونق میلہ ہوتی تھیں، جگہ جگہ عید کارڈ اور پوسٹ کارڈ کے اسٹال۔ جمع پونجی سے عید کارڈ خریدنے ہیں پھر یہ فیصلہ کرنا کہ کس کو کونسا دیں،کارڈ کی عبارت پہ محنت کرنی کوئی زیادہ آرٹسٹ ہوتا تو پھول بوٹے بھی بناتا۔ کسی دوست نے ساتھ میں کوئی تحفہ بھی دے دیا ہے تو اب تو لازمی ہو گیا کہ کارڈ کے ساتھ چھوٹا موٹا تحفہ بھی شامل کیا جائے، عموماً یہ تحفے بھی گلی محلے میں لگے سستے اسٹال سے لیے گئے ہار بندے، جیولری یا منقش سی ڈائریاں ہوتی تھیں۔
اب سارے اہتمام ہو گئے اور عید کا شعر نہیں لکھا تو کیا مزا۔ جو کارڈ کسی بڑے یا قابل احترام دوست کو دیے جاتے تھے
اسمیں ۔

عید آئی تم نہ آئے کیا مزا ہے عید کا
عید ہی تو نام ہے دوستوں کی دید کا
قسم کے اشعار لکھے جاتے، جن سے بے تکلفی اور مذاق کا رشتہ ہوتا اُنھیں
عید آئی بڑی دھوم دھام سے قسم کے اشعار لکھتے۔ٹیچرز اور فارمل لوگوں کو عموماً انگلش میں کارڈ لکھا جاتا،شاید اس لیے کہ اس سے تھوڑا آفیشل احساس ہوتا ہے ۔

یہ ساری ایکٹیویٹی ذوق کی پرورش کیا کرتی تھی، معیاری اور رکشے والی شاعری میں فرق کرنا، اچھی عبارت ڈھونڈنا اور چننا اور پھر محبت اور نک تک سے لکھنا یہ سارے کلاسک قسم کے کام تھے۔

اب تو رسمی سا فارورڈیڈ میسج خود پتہ بھی نہیں چلتا کہ کہاں کہاں بھیج دیا۔پڑھنے والا بھی ایک نظر دیکھ کے سکرول ڈاون کر دیتا ہے۔

چاند رات پہ منہ اٹھا کے کہیں بھی نکل جاؤ نہ شیر خورمہ کی فکر نہ پکانے کی ٹینشن، ہر جگہ رونق میلہ۔
عید کے دِن کھاؤ پیو عیدی جمع کرو اور گنے جاؤ جیسے ہفت القیم کی دولت۔

مجھے لگتا ہے کہ یہ ساری خوشیاں بھی بے فکری سے جڑی ہوتی ہیں۔ چاند رات کو ایک اور مزیدار خوشی عید اور چاند رات کا ڈرامہ بھی ہوتا تھا۔ بے حد شگفتہ، لکھنے والے ہلکی پھلکی کہانیوں میں جیسے ہمیں بھی جوڑ لیتے تھے، اِدھر عید کی تیاری ہو رہی ہے ۔کپڑوں پہ استریاں چل رہی ہیں اور ساتھ میں ڈراما اور چاند رات کے شوز
“فلک پہ کیسا یہ چاند نکلا زمیں بھی چاندوں سے بھر گئی ہے”
اس نغمے سے تو جیسے بچپن کا پورا ناسٹلجیا جُڑا ہے۔

تھوڑا بڑے ہوئے تو سب سے زیادہ مزا ڈائجسٹ میں رمضان اور عید کی کہانیاں پڑھنے میں آتا تھا ہر چند کہ ہیروئن کباب، پلاؤ، قورمہ، رائتہ چٹنیاں اور شیر خورمہ بنا کے بھی بنا تھکے صبح صبح انارکلی پہن کے، مہندی لگے ہاتھوں میں چوڑیاں چھنکاتی پھرتی تھی لیکن بھلا ہو لڑکپن کے کچے ذہن کا کہ کبھی یہ سوچنے کی توفیق ہی نہیں ہوئی کہ ایسا کیونکر ممکن ہے ،ہمارا دھیان تو بس کباب پلاؤ سے پرے ہیرو کے کلف لگے کرتے سے اٹھتی کولون کی مہک میں ہی اٹک جاتا تھا
سچ پوچھیں تو عید کی صبح اتنا چولہا چکی کرنے کے بعد ہیروئن کی حالت بھی ہماری طرح خطرناک ہی ہوتی ہوگی، بڑی زیادتی کی اس دور کی رائٹرز نے ہمارے ساتھ کم از کم یہ پکانے کے کام شام ہیروئن کی اماوں کے سپرد کر دیے جانے چاہیے تھے تاکہ تھوڑا سا پریکٹیکل ہو جاتا ہم تو عرصہ سگھڑاپے سے پلاؤ، کباب، قورمے اور لوازمات بنا کے انارکلی پہن کے چوڑیاں چھنکانے کی کوشش میں ہلکان ہوتے رہے لیکن سمجھ یہ آیا کہ

یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجئے۔۔

دیکھیے بات کس خطرناکی سے نکلی اور کہاں پہنچی کہ بچپن کے رمضان، چاند رات اور عیدیں یادوں کی بارات کی طرح ذہن کے دریچوں میں اتر آئیں۔

چلیں اچھی بات یہ ہے کہ کل سب ایک ساتھ عید منا رہے ہیں، میں بھی چل کے شیر خورمہ چڑھاتی ہوں کچھ روایتیں ہمیشہ قائم رہنا چاہئں ان سے بچپن کی خوشبو آتی ہے ۔

چاند رات مبارک
* تصویر ہماری 1992 کی ڈائری کی ہے

(Visited 30 times, 1 visits today)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *