آج مدرز ڈے ہے، ماؤں کا دن۔ سوچوں تو مجھے کب یہ منصب پہلی بار ملا تھا۔ شاید جب جب مجھے اس کی سمجھ بھی نہیں تھی، نئی جگہ، تنہائی، سیدھی سیدھی چلتی زندگی میں جیسے ایک دم سے بمپی رائڈ۔ کبھی سر میں درد ،کبھی بلا وجہ کا رونا ،کبھی ہر چیز سے چڑ،کبھی ساری دنیا حسین انہیں موڈ سونگز کہتے ہیں میں نے شاید پہلی بار اسکے بارے میں ڈاکٹر کے دیے ہوئے لٹریچر میں پڑھا۔ سونے پہ سہاگہ ابھی شروعات ہی ہوئی تھی کہ چکن پاکس کی ازیت نے آن گھیرا، کیوں اور کیسے کا ذکر رکھنے دیتے ہیں بس اپنی ہی نا سمجھی اور لا پرواہی تھی ۔ ایک رات تو بے حد ازیت ناک تھی جو ساری رات تکلیف سے جاگتے گزری۔ اس پہ خوف یہ کہ پتہ نہیں آنے والی روح پہ اسکا اثر کیا ہوگا بس اللّٰہ نے خیر کر لی۔
یہ دورانیہ بھی عجیب ہوتا ہے، اس پورے وقت میں پہنے ہوئے کپڑوں، کیے ہوئے کاموں اور کھائے ہوئے کھانوں سے اکثر ایسی بیزاری ہوتی ہے کہ اُنہیں دیکھنے کا دل نہیں چاہتا، بہُت بعد میں ایک اور عجیب تجربہ ہوا کہ جو پسندیدہ ترین خوشبوئیں اس دوران استعمال کیں بعد میں اُن کی مہک برداشت کرنا مشکل ہوگئی۔ ایک بُہت قیمتی خوشبو اسوقت صاحب امریکہ سے لائے تھے، لیکوسٹ کی لمبی سی نازک شیشے کی بوتل ایسی کہ جیسے ہر طرف گلاب مہک اٹھیں بعد میں ہر جگہ میں اُسے سالوں سنبھالتی پھری کہ سمجھ نہیں آتا تھا کہ جب لگاؤ برداشت کرنا محال اور زندگی دشوار محسوس ہونے لگتی تھی۔ کہتے ہوئے یا کسی کو دیتے ہوئے حیا آتی تھی کہ صاحب کیا سوچیں گے آخر کو ائر فریشنر کے طور پہ باتھ روم میں رکھ دی تو باتھ روم جانا امتحان بن گیا، پھر سمجھ آئی کہ یہ اب وہ خوشبو ہی نہیں رہی بلکہ پہلے بیٹے کے وقت اور ماحول کی یادیں ہیں، ان سے طبیعت کے اُلٹ پھیر، تھکن، اولین کینیڈین اندھیری شاموں کی تنہائی اور چکن پاکس کی یادیں جُڑی ہیں۔خوشبو اور نغمے ایسے ہی زندگی کے مختلف ابواب سے نتھی ہو جاتے ہیں۔ صاحب کے سامنے بھی اقرار کیا اور پھر وہ خوشبو کسی کو دان دی گئی کہ اُسکی بے انتہا نازک اور خوبصورت بوتل کو دیکھ کے بھی بدمزگی ہوتی تھی۔ لیکن کتنی مزے کی بات ہے کہ اس وقت سے جتنی بھی نفرت ہو جو تکلیف کی اصل وجہ ہوتی ہے اُسے ساری زندگی ہتھیلی کا چھالا بنا کے رکھا جاتا ہے۔
پھر جب پہلی بار اُسے گود میں بھرا تو صرف آنسو ہی آنسو تھے تشکر کے، سکون کے، آزمائش سے گزر آنے کے اور درد سے نجات پانے کے۔ عمر کم ہو تو آدمی مدبر بن کے جذبات پہ زیادہ پہرے بھی نہیں باندھتا، رونا ہے تو کھل کے رو لیے، لڑنا ہے تو چیخ چلا لیے اور محبت آئی تو بھی اظہار کر دیا، تو بس وہ جو آنسوؤں میں تشکر کا بھیگا ہوا لمحہ تھا اسمیں بھی کچھ اظہار ہو گئے جو صاحب کمرے سے نکل کے ایسے ہو جاتے تھے کہ “آپ کون ہیں بہن جی” اُن کے جذبات سے گوری نرسیں بھی ذرا جھجک سی گئی تھیں، جس لیبر روم میں فون استعمال پہ پابندی وہاں سے بانٹنے کے لیے مٹھائی آرڈر ہو رہی ہے، ارے بھئی گھر تو پہنچ جائیں بس پہلے پہل کے تجربے اور کچھ لمحے ایسے ہی ہوتے ہیں، کچھ ساعتوں کے لیے لوگوں کو بدل ڈالتے ہیں۔ اِدھر ہم پریشان آنسوؤں کی بہتی لڑی میں پوچھیں جائیں ،ارے دیکھیں آنکھیں کھول رہا ہے، اسکی اُنگلیاں پوری ہیں ، سب چیزیں ٹھیک ہیں کہ سارے موقعوں پہ کبھی بیٹی یا بیٹے کی دعا نہیں مانگی بس میرے اللّٰہ سلامتی ذہنی اور جسمانی
کچھ دعاؤں کے الفاظ جیسے لاشعور میں چپک جاتے ہیں۔ آج بھی کسی پیارے کے لیے مانگوں تو یہی منہ سے نکلتا ہے “اللہ تعالیٰ نیک،صالح، فرمانبردار، خوبصورت، پیاری، صحتمند، ذہنی اور جسمانی ہر لحاظ سے مکمل اور سلامت اولاد سے نوازیں، اُسکی قسمت اور نصیب بہترین فرمائیں، ماں بچے کی اور سب کی اچھائی،بہتری، بھلائی، خوشی، عزت اور سلامتی کے ساتھ، دنیا و آخرت میں بلند مرتبے کے ساتھ اور والدین کو اسلام کے بہترین اصولوں کے تحت اُسکی پرورش کی توفیق عطا فرمائیں،آمین (لکھ اسلیے دی کہ جو اس کیفیت سے گزر رہے ہیں اُنکے لیے یاد دھیانی ہو جائے)
بعد کے دونوں بچوں کے ادوار دوسری طرح کی تکلیفوں میں گزرے، وقتی زیابیطس شاید ورثہ تھا، ہر کھانے سے پہلے انسولین کے انجکشن کا ساتھ رہا، تیسری بار ایک اور افتاد آن پڑی، “کولیستھیسس” اسمیں جگر اس مخصوص مدت کے دوران کوئی کیمیکل خارج کرنا شروع کر دیتا ہے جس سے جسم شدید خارش کا شکار ہو جاتا ہے، اب رات کو اچانک آنکھ کھلے گی اور آپ دیوانوں کی طرح کھجا رہے ہیں، ایسی حالت کہ بے دھیانی میں خون ہی رسنے لگے۔ یا وحشت یہ کیسے کیسے امتحان ہیں ساتھ میں خوف بھی کہ اسکا شمار ہای رسک میں ہوتا ہے ایسے میں اسٹل برتھ کا خدشے کے پیش نظر کچھ ہفتہ پہلے ہی ڈاکٹر آپ کو بلا لیتے ہیں یحییٰ کی آمد بھی تین ہفتے پہلے ہوئی۔ ابھی دنیا میں آمد ہوئی نہیں کہ اگلے دن ساری خارش غائب۔جگر بھی اپنی جگہ پہ آگیا اور شوگر بھی بلکل فٹ۔ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو فسانہ تھا
اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ بعد کے تجربے پہلے کے مقابلے میں پیچیدگی کے باوجود کم معلوم ہوتے ہیں کیونکہ آپ سمجھدار ہونے کے ساتھ ساتھ قدرے مصروف بھی ہو چُکے ہوتے ہیں اور مصروفیت ہزار نعمت ہے۔
شکر کرتے ہیں کہ ان ادوار سے سلامتی سے چھوٹ گئے ورنہ اس کے بعد ڈیپریشن، بےبی بلیوز اور دوسری ذہنی کیفیات کا بھی ایک ایسا مسلہ ہے جو کبھی کبھی برسوں پہ محیط ہو جاتا ہے۔
اولاد کا گود میں اترنے کے بعد ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو شائد والدین کے گزر جانے پہ ہی ختم ہوتا ہے۔ پہلا دھچکا اسوقت لگتا ہے کہ جب ہمیشہ سے نازک سراپا ایک بے ڈھنگے سے وجود میں ڈھل جاتا ہے، جب پچھلی ساری زندگی وجود کی تعریفیں سنی ہوں تو “ہائے تمہیں کیا ہو گیا” جیسے تبصرے گویا ٹھا کر کے لگتے ہیں۔
جو کمرہ ہر وقت خوشبوں سے مہکتا ہے، جو سائڈ ٹیبلز نازک شو پیس اور چاکلیٹ سے سجی ہوتی ہیں اور جو بستر نفیس بیڈ شیٹوں سے ہمیشہ جگمگاتا ہے وہاں ایک دم چھوٹی بڑی نیکریں، لنگوٹ، پیمپر، نیپکن ،بب جا بجا نظر آنے لگتے ہیں۔ چادر مختلف اور تکیے کے غلاف الگ ہو جاتے ہیں کہ کبھی دودھ نکال دیا کبھی لیک ہو گئے۔ جو نفیس طبیعت دور کسی کو دیکھ کر ہے مکدر ہو جاتی تھی اور کھانا نہیں کھایا جاتا تھا ، وہی کھانے کے درمیان سے اٹھ کے پیمپر بدل کے دوبارہ جیسے تیسے نوالے حلق سے اُتار رہی ہوتی ہے کہ پتہ نہیں پھر کھا بھی سکیں یا نہیں بے شمار جاگتی راتوں سے لے کر مختلف مراحل تک، دانت نکالنے کا عمل، ڈائپر، بوتلیں، بولنا ،چلنا، چوٹیں، بیماریاں، ڈاکٹروں کے کلینک میں لمبا لمبا اِنتظار، اسکول، پڑھائیاں، لڑکپن کی حماقتیں، جوانی کا جوش، شادیاں اور پھر بچوں کے بچے ، آخر میں جب صرف لب ہی ہلنے کے قابل رہ جائیں تو اُن سے بھی دعاؤں کے پھول بھیجنا جیسے پہلا فرض ہے ۔
بس یہی ہوتی ہیں مائیں ، پوری کتاب بھی لکھ دیں تو کم پڑے کہ یہ تو فقط ایک ماں کی کیفیات ہیں، ہر عورت پتہ نہیں کن کن مراحل سے گزر کے اس مرتبے پہ پہنچتی ہے شاید اسی لیے اللّٰہ نے ان قدموں تلے اپنا سب سے قیمتی انعام رکھ دیا جو ایک انسان کی پوری زندگی کے اعمال کی بنیاد پہ اُسے دیا جائے گا ویسے اس سے کم تو مائیں deserve بھی نہیں کرتیں، کیا خیال ہے؟
Happy Mother’s Day تصویر میں میرے تینوں نیولی بورن جگر گوشے ماشااللہ