عالمی یومِ شاعری پہ

یوں تو بچپن میں جو پہلا شعر یاد کیا وہ یہ تھا

یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا
اُسکے بعد پانچ چھ سال کی عمر میں ہی بہُت سارے اشعار اور بھی یاد کرائے گئے ،اب صورتِ حال کچھ یوں ہو گئی کہ جہاں دو سے چار لوگ جمع ہوتے شعر سنانے کی فرمائش کی جاتی اور ہم کسی ٹیپ ریکارڈر کی مانند شروع ہو جاتے لیکن شاعری سے پہلا باقاعدہ تعارف اور انسیت شاید میٹرک کے زمانے میں سعد اللّٰہ شاہ کی اس نظم سے ہوئی، شاید کسی ڈائجسٹ میں اسکا کچھ حصہ پڑھا تھا، پوری نظم کو پڑھنے کے شوق میں شاعری کی پہلی کتاب خریدی جس کا عنوان بھی یہی تھا “تمہی ملتے تو اچھا تھا” پھر یہ سلسلہ چل نکلا اور آج بھی جاری و ساری ہے۔

کیا آپ کو یاد ہے کہ آپ کا شاعری سے تعارف کیسے ہوا؟
اگر یاد ہے تو ضرور بتائیں اور اپنی پسند کا کوئی شعر، نظم ،غزل یا بند ہمارے ساتھ شیئر کریں۔
عالمی یومِ شاعری کے حوالے سے اولین دنوں کی یادگار نظم آپ کو بھی پڑھواتے ہیں۔
جہاں پھولوں کو کھلنا تھا، وہیں کھلتے تو اچھا تھا
تمہی کو ہم نے چاہا تھا، تمہی ملتے تو اچھا تھا
کوئی آ کر ہمیں پوچھے تمہیں کیسے بھلایا ہے
تمہارے خط کو اشکوں سے شب غم میں جلایا ہے
ہزاروں زخم ایسے ہیں اگر سلتے تو اچھا تھا
تمہی کو ہم نے چاہا تھا تمہی ملتے تو اچھا تھا
تمہیں جتنا بھلایا ہے تمہاری یاد آئی ہے
بہار نو جو آئی ہے وہی خوشبو پھر لائی ہے
تمہارے لب میری خاطر اگر ہلتے تو اچھا تھا
تمہی کو ہم نے چاہا تھا، تمہی ملتے تو اچھا تھا
ملا ہے لطف بھی ہم کو حسیں یادوں کی جھلمل میں
کٹی ہے زندگی تم بن مگر اتنی سی ہے دل میں
اگر آتے تو اچھا تھا اگر ملتے تو اچھا تھا
تمہی کو ہم نے چاہا تھا تمہی ملتے تو اچھا تھا

شاعر:سعد اللہ شاہ

(Visited 1 times, 1 visits today)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *