کیمپنگ میرا خواب تھی!
دور کسی وادی میں الاؤ کے گرد رات کرنا ، لکڑیوں کے چٹخنے کی آوازیں ،گھپ اندھیرے میں سلگتی آگ، پتوں پہ ہوا کی سرسراہٹ،ستاروں بھرا آسمان کچھ گیت اور کچھ یادیں اور پھر صبح روزآنہ سے ہٹ کے کسی نئے حسین منظر میں اٹھنا۔
کیمپنگ میری بکٹ لسٹ میں تھی اور کب سے تھی؟
شاید جب سے جب این ٹی ایم پہ “پروبلم چائلڈ” آتی ہے اور اسمیں سب بچے کیمپ فائر کے گرد بیٹھ کے گانے گا رہے ہوتے ہیں اور جو پروبلم چائلڈ ہے وہ بیئر کو کھانے سے بہلا کے کیمپ تک لے آتا ہے ،یا پھر شاید جب سے جب “آوارہ بھنورے جو ہولے ہوکے گائیں” گاتی کاجل آخر میں اپنے رنگین خیمے سے نکل کے برفانی منظر دیکھتی ہے اور برفیلی صبح میں دھوپ بھرے منظر میں برف اڑاتی تیز ہوا کے ساتھ اپنی سہلیوں سمیت برف کے منظر کا حصہ بن جاتی ہے
ہلکورے ہلکورےےے،
یا شاید پھر تارڑ صاحب کے سفر ناموں سے جو میں سیکنڈ ایئر میں کلاس میں پیچھے بیٹھی کلاس کے دوران فزکس کی کتاب کے اندر رکھ کے پڑھا کرتی تھی، اور کوانٹم کی نہ سمجھ میں آنے والی تھیوری پہ تین حرف بھیجتے ہوئے وہاں پہنچ جاتی جہاں کبھی “تھنگل” کے گلابی کھیتوں میں خیمہ لگا ہوتا ہے توکبھی “جھیل کرومبر” کے کنارے رنگ برنگے خیموں کی میخیں گاڑھی جا رہی ہوتی ہیں، اور شاید جب سے بھی جب ہم نئے نئے کینیڈا آئے تھے اور ایڈمنٹن میں ایک برسوں سے آباد خاندان سے ملے جو بہُت ملنسار آنٹی انکل تھے جن کے بچے اب بڑے ہو چُکے تھے اور انکا سارا وقت امریکہ کینیڈا میں ہی گزرا تھا ، صادق انکل ماہرِ نفسیات تھے اور کسی زمانے میں ہالی ووڈ کی اس بلڈنگ میں رہا کرتے تھے جہاں اُس دور کے سلیبرٹی آباد تھے اور پھر جب کینیڈا آئے تو پہلی جاب جہاں ملی اُس قصبے میں یہ فقط ایک مسلمان میاں بیوی تھے ،آنٹی نے بتایا رمضان میں جب سولہ گھنٹے کا روزہ ہوتا تو ہمارے پڑوسی بھی ہمارے لیے اسکا اہتمام کرتے پھر یہ لوگ ایڈمنٹن کی پہلی مسجد کے بلکل سامنے آباد ہوئے اور اسکی تعمیر بھی اُنکے سامنے ہوئی، انکا شمار ایڈمنٹن کے مشہور گھرانوں میں ہوتا تھا اور وہ ہم اجنبیوں سے ایسے ملے جیسے کب سے جانتے ہوں ،میں ٹوٹل ہوم سک موڈ میں تھی ۔آنٹی نے خُوب باتیں کیں، اپنے روایتی میمنی کھانے کھلائے یہ بھی بتایا کہ کیسے اُنکے شادی کے جوڑے پہ سونے کے تاروں کا کام بنا تھا جو اُنہونے کچھ عرصہ پہلے بھی کسی کی شادی پہ پہنا، اپنے بیٹے کی تصویریں بھی دکھائیں جو مجھے کسی اسٹیکرز کی شیٹ کی طرح لگیں جو بچپن میں ہم خوبصورتی کے لیے نئی کاپی کے کورز پہ چپکایا کرتے تھے،انکا بیٹا موٹر سائیکل کی ریس کرتا تھا اور وہ کبھی دیکھنے نہیں جاتی تھیں کیونکہ اُنہیں ڈر لگتا تھا اور ساتھ ہی انہوں نے اپنی کیمپنگ کے قصے بھی سنائے کہ کیسے وہ لوگ ہر سال کینیڈا کے راکی ماؤنٹینز میں کیمپنگ کرنے جاتے ہیں کیسے اُنہونے کیمپنگ پہ آئے گوروں کو اپنے اسٹائل کی بھنڈیاں پکا کے کھلائییں اور کئی بار گرزلی بیر بھی دیکھے تو یہ کام میری بکٹ لسٹ میں تھا اور جب آپکے اندر ایسے کاموں اور سفر کرنےکا کیڑا ہو تو کینیڈین سیٹیزن شپ کی سیریمنی اس جنوں کو مزید بھڑکا دیتی ہے۔
جب آپ کو آفیشل طور پہ سیٹیزن ڈیکلر کرنے کے بعد ہال کی روشنیاں بجھا کے سینما نما اسکرین پہ کینیڈا کے بارے میں ایک سحر انگیز ویڈیو دکھائی جاتی ہے کہ جس میں غالباً سارے کینیڈا کا حُسن پیش کرنا مقصود ہوتا ہے کہ دیکھو قسمت بدل گئی ،کتنے اچھے ملک آ گئے ہو ،کیسی جھیلوں ،پہاڑوں اور سبز قالینوں، خوشحال اور امن والی جگہ آن بسے ہو ۔ہنستے مسکراتے خوش گپیاں کرتے کہیں بہتے پانی میں کشتیاں چلاتے لوگ تو کہیں چہلیں کرتے لمبی لمبی پگڈنڈیوں پہ ہائیکنگ کرتے لو برڈز جوڑے تو کہیں پھولوں سے بھری ٹوکری آگے لگائے سائیکلیں چلاتے لوگ۔
دیکھ لو بھئی کیسے مزے کی جگہ کی شہریت مل گئی ہے ، کتنے معتبر ہو گئے ہو بس یہ کوئی نہیں بتاتا کہ بہتے پانی، پارکس اور پگڈنڈیوں کے علاوہ باقی تفریحات کے لیے تھوڑا رگڑا کھانا پڑے گا ،زرا محنت کرنی پڑے گی، خیمے, ،سامان اور کشیاں جمع کرنے کے لیے دن رات کے خرچوں،کرائے اور مورٹگیج اور بلوں، گاڑی کی انشورنسوں کے چکر سے نکل کر سفر کرنے اور ہوٹلوں اور کاٹیج کی لائف کے مزے لینے میں ابھی تھوڑا وقت لگے گا ،ہر چیز کی قیمت ہے اور ہر تفریح مفت نہیں ہوتی۔
تو پھر یہ کیمپنگ طوالت کا شکار ہوتی گئی، کبھی اسلیے کہ گود کے بچوں کے ساتھ کیمپ کی بے آرامی اور باتھ روم کا سفر ہی مصیبت بن جائےگا، کبھی جاب میں اُتار چڑھاؤ آگیا، کبھی پیسے جمع ہوئے تو پاکستان اور دبئی اپنوں سے ملنے کے خیال نے للچا دیا، کبھی جیب اجازت نہیں دیتی کہ اتنی ساری چیزیں ایک ساتھ خریدنا مشکل ہے کیمپ،سلیپنگ بیگز، چولہا،گیس سلنڈر، لائٹس، لکڑی، علم غلم اس سے بہتر ہے ایک رات کسی ہوٹل میں گزار لی جائے تو بس بکٹ لسٹ کا یہ کام ٹلتا گیا اور صحیح بتاؤں تو آس پاس بھی اکّا دکّا لوگ کیمپنگ کے شوقین پائے گئے، کچھ لوگ ہماری طرح ہی کی جد و جہد سے گزر رہے تھے، کچھ لوگوں کو یوں آدھا گھر جمع کر کے جنگل میں لے جانا پاگل پن لگتا ہے ،کچھ لوگ چھٹیاں کیمپ کے بجائے ہوٹل اور کاٹیج کے آرام دہ ماحول میں گزارنا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں تو کوئی خاص موٹیویشن نہیں مل سکی۔
اور پھر یوں ہوا کہ اسباب بن گئے
بفضلِ خدا بکٹ لسٹ کے ایک کام پہ ٹک لگ گیا
ایک خواب اور پورا ہوگیا
ایک سبز اور نیلا خیمہ
اندھیری رات میں روشنی کا الاؤ
آسمان پہ بہُت سارے ستارے،
ہولے سے چلتی ہوا میں سرسراتے پتّے،
فضا میں رچی ہوئی گيلی گھانس کی مہک اور ہم
یہ تجربہ بھی بلآخر ہو گیا
اور
وصل کے اولین لمحے اور
پہلے پہلے تجربے ہمیشہ یادگار ہوتے ہیں
(باقی آئندہ)
کیوں بھئی! مزا آیا؟
ارادہ ہے کہ اس سفر کو اس انداز سے قلمبند کیا جائے کہ اگر کوئی کیمپنگ پہ جانا چاہتا ہے تو اُسے ایک پوری دیسی کیمپنگ گائیڈ مل سکے۔
دوسرا حصہ کتنی جلدی آئے گا اس کا فیصلہ آپ کے کمنٹس اور لائیکس کرینگے۔
تو پھر شروع ہو جائیے
کیمپنگ کہانی(حصّہ اول)
(Visited 1 times, 1 visits today)
One thought on “کیمپنگ کہانی(حصّہ اول)”