تحریر: قرۃ العین صبا
میرے سامنے دو ہزار بیس کی میموری ہے۔
دو ہزار انیس کے گولز لکھے ہیں اور میں پڑھ کے مسکرا بھی رہی ہوں۔
بات تو زیادہ پرانی نہیں لیکن اہم ضرور ہے
یہ بھی کوئی گولز ہیں بھلا؟
فیس بک پیج پہ ایکٹو ہونا، اپنا انسٹاگرام بنانا ،ویب سائٹ پہ کام کرنا اور پوڈ کاسٹ شروع کرنا اور چار میں سے تین ہدف پورے ہوئے اور پوڈ کاسٹ کو بیک برنر پہ رکھ چھوڑا کیونکہ ایسا لگتا تھا کہ گفتگو میں کہیں بناوٹ کا عکس آ رہا ہے ۔
کیا واقعی یہ میرے گولز تھے؟دیکھنے میں بلکل بچکانہ سی باتیں لیکن یہ دراصل اولین قدم تھے، اسوقت انکے لیے بھی ہمت درکار تھی۔ یہ نہ اٹھائے ہوتے تو نہ فیس بک پہ چھ ہزار کا خاندان ہوتا اور نہ انسٹاگرام پہ تین ہزار کا، نہ ہر ہفتے میرا لکھا ہوا اور کہا ہوا پچاس ہزار لوگوں تک پہنچتا ،نہ ویب سائٹ بنتی، نہ لائیو شو ہوتا،نہ یو ٹیوب چینل ہوتا، نہ بزمِ خیال ہوتی، نہ ٹی وی ایڈ لکھنے کا موقع ملتا اور نہ ہی مشاعرے تک بات پہنچتی، بس وہی خوف ہوتا ،فکر ہوتی ،دوسروں کے رویوں کا ڈر ہوتا جو شائد ہم سب کی زندگیوں کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
آدھی زندگی تو ڈرتے ڈرتے ہی گزر جاتی ہے!
اور جن کی ڈرتے ڈرتے گزرتی ہے اُنکی بقیہ دوسروں کو ڈراتے ڈراتے۔
کتنی دانش مند آوازیں بہُت کچھ کہنے کی متمنی ہوتی ہیں لیکن باتیں ان کہی رہ جاتی ہیں۔کتنے ہی الفاظ ہیں جو لکھے جانے کے منتظر ہوتے ہیں لیکن انجانے خدشوں کے تحت انگلیوں کی پوروں تک نہیں پہنچ پاتے ،کتنے ہی قابل دماغ طرح طرح کے علم و حکمت کے خزانے اپنے اندر سموئے ہوتے ہیں لیکن چند ہارے ہوئے لوگوں کی تنقید کے اندیشے سے نہ دریچے کھولے جاتے ہیں اور نہ روشنی بانٹنے کی نوبت آتی ہے۔
تو دوستو! بات پہلا قدم اٹھانے کی ہے ، چاہے آواز لڑکھڑائے، ہاتھ کپکپایں، دل میں تنقید کا خوف چھپا ہو یا تضحیک کا ڈر ہو ، اور چاہے ان سب کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے جب تک ہمت کر کے پہلا قدم نہیں اٹھایا جائے گا اور سفر شروع نہیں کیا جائے گا بلندی کا خواب دیکھنا اور کامیابی کی توقع رکھنا فضول ہے۔
جب سیڑھی پہ قدم بہ قدم چڑھتے جاتے ہیں تو پہلے سامنے کی چیزیں قد سے بڑی لگتی ہیں پھر برابر آتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ چھوٹی اور نیچی دکھائی دینے لگتی ہیں۔
وقت آپ کو سنوار دیتا ہے ، آپ کی صلاحیتیں نکھرتی جاتی ہیں ،آپ کام بناتے بگارٹے آہستہ آہستہ سلیقہ اور طریقہ سیکھتے جاتے ہیں، بس لگن ہونی چاہیے۔
محنت تو بڑی لگتی ہے، حوصلہ بھی ٹوٹنا ہے ،پیچھے رہ جانے والوں کے جملے بھی سننے کو ملتے ہیں، سفر میں ساتھ چلنے والے ٹانگیں بھی کھینچتے ہیں لیکن ہمت بندھانے والے اور ساتھ دینے والے بھی بہُت سارے ہوتے ہیں اور سب سے بڑھکر یہ کہ نیت صاف منزل آسان ۔اللّٰہ آپ کی محنت کبھی ضائع نہیں کرتا۔
تو بس پھر ،آپ کیا سوچ رہے ہیں؟ پہلا قدم اٹھائیے۔اپنا سفر شروع کیجئے۔ اپنے اندر کی فکروں سے لڑئیے، خوف کو پچھاڑیے، شور پہ دھیان دینا چھوڑ دیں اور جو بھی کام آپ کو آتا ہے ،جس علم پہ آپ دسترس رکھتے ہیں، جو بھی مثبت سوچ آپ دوسروں میں منتقل کر سکتے ہیں اُسے دوسروں میں بانٹنا اور اوروں کو سکھانا شروع کر دیں ،آپ کا راستہ خود بہ خود بنتا جائیگا۔
آزمائش شرط ہے!
قرۃ العین صبا
سفر شروع کریں!
(Visited 1 times, 1 visits today)