مجھے بچپن ہی سالگرہ منانے کا بہُت شوق ہے

جب ہم بچے تھے تو سالگرہ کا خیال نیندیں اڑا دیتا تھا،رنگ برنگے پیکنگ پیپروں کی خوشبو اور ان میں
جگمگاتےخوبصورتی سے سجے تحفے . قریبی لوگوں کےجمع ہونے کا دبا دبا سا جوش اور اس چھوٹے سے جھرمٹ کے بیچوں بیچ کیک کاٹنے کے خیال سے جڑی فنٹسی اندر ہی اندر خوشی کے کئی پھول کھلا دیتی تھی.
جب تھوڑے بڑے ہوے تو سالگرہ منانے کے طریقوں میں فرق آگیا.گھر والے تو جوش و خروش سے دن مناتے ہی تھے لیکن اب اسکول میں دوستوں کے ساتھ کبھی آئس کریم کبھی کوئی اور چھوٹی موٹی ٹریٹ یا کبھی اس بہانے ایک دوسرے کے گھر آنا جانا ہو جاتا. کچھ کزنس اور دوستیں ایسی تھیں جنکی سالگرہیں یاد رکھنا اور جنکے ساتھ تحفوں کا لیں دین گویا فرض تھا۔
پھر کالج کا دور شروع ہوا.ڈی ایچ اے کالج اس وقت شہر سے بہت دور تھا اور دور دور تک بیابان، وہاں سے کہیں آنا جانا ناممکن تھا اسلئے کینٹین میں ہی پارٹی کر کے ایک دوسرے کو تحفے دے دیتے تھے.سچ کہوں تو کسی کی سالگرہ پہ جب ایک خلقت ہم آواز ہوتی اور کیفے ٹیریا کی دیواریں ہیپی برتھ ڈے کے گانے سے گونجتیں تو بڑا مزہ آتا تھا۔سالگرہ کسی کی بھی ہو بےگانی سالگرہوں میں سب دیوانے ہو کے گانے کےخوب مزے لیتے تھے.
وقت کچھ اور آگے کھسکا تو یونیو رسٹی کا دور آیا اور تھوڑی سی آزادی نصیب ہوئی, کے ایف سی قریب تھا.اب سالگرہ کے موقعوں پہ یا تو کے ایف سی تک پیدل مارچ کرتے یا پھر چاروں دوستیں رکشے میں ٹھس کر پیزا ہٹ سدھارتیں ،سلاد کی ڈش پہ ،آس پاس کریکر کی دیواریں کھڑی کر کر کےانواع
اقسام کی سلادوں کی اونچی عمارت بناتےاور اپنی جمع پونجیاں حلال کرتے ،پیزے کے ساتھ ٹھنڈی ٹھنڈی کوک کے گھونٹ اندر اتارتے اور اپنے محدود بجٹ میں ایک آئس کریم سے دو دو لوگ لطف اندوز ہوتے ،بہت ساری باتیں کرتے،کھل کے ہنستے اور بے فکر ہو کے واپس آتے.یونی ورسٹی کے چار سالوں میں بد قسمتی سے سالگرہ ہمیشہ امتحانوں اور روزوں کے دوران پڑی لیکن ٹریٹ لینے والے تحفہ دینے کےبعد رمضان ختم ہونے کا بڑی دل جمعی سے انتظار کرتے.
یونی ورسٹی کے دوسرے سال ہی اماں نے نکاح کی صورت کھونٹے سے باندھ دیا اور جھوٹ کیوں بولیں ہماری سالگرہوں میں گویا چار چار چاند لگ گئے.ہر سالگرہ پہ ٹی سی ایس سینٹمنٹس والا مہکتے پھول اور کیک لے کر کھڑا ہوتا،کینڈا سے ڈیلیوری ہےاسکے بعد سارا دن گھر والوں کی چھیڑ خانیاں بھگتے گزرتا.
پھر کچھ یوں ہوا کہ شادی ہو گئی.نیے رشتے اور زمےداریاں بڑھیں،سات سمندر پار
آن بسے، گھر والے دور ہوئے اور فرق یہ آیا کہ پھولوں اور تحفوں کا رخ اب پاکستان سے کینیڈا کی طرف ہوگیا، آنے والے پھولوں میں پیچھے چھوڑ آنے والوں کی خوشبو اور کیک میں پاکستان کی مٹھاس گھلی ہوئی محسوس ہوتی۔دوستوں سے رابطہ کم ہو گیا .اسکے بعد کی سالگرہیں تو حسب توفیق وہی رہیں بس لوگ محدود ہو گئے۔
پھر بچوں کا دور آیا تو برتھ ڈے کی ساری دھوم دھام کا رخ انکی طرف مڑ گیا اور ہمارے دن اُنکی چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور کھانوں کے اہتمام اور انتظامات میں گزرنے لگے۔
جیسے جیسے بڑے ہوتے جاتے ہیں زندگی کی حقیقتیں ،مسائل ،ذمے داریوں میں اس فنٹسی کے رنگ مدھم پڑتے جاتے ہیں.سب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے ۔
کئی سال آگے کھسکے، پھر کچھ دوست بنے ،ایک دن ایک دوست کے مشورے سے برتھ ڈے کلب ووجود میں آیا جس نے ہمیں پھر سے مہینے دو مہینے میں ایک دن کے لئے اپنی اپنی ذمہ داریاں بھول کر پھر وہی بےفکر اور کھلنڈری لڑکیاں بنا دیا .
اب جسکی سالگرہ ہو اسکے لئے اسکی پسند کا
کھانا کھاتے ہیں ،مل کر تحفہ لیا جاتا ہے اور کیونکے خاص اسی تاریخ پہ ملنا بہت مشکل ہے سو اس مہینے سب سے پوچھ کے ملنے کی تاریخ مقرر کر لی جاتی ہے.ان سب انتظامات کے باوجود حوا کی ذات سے اتنے کام جڑے ہیں کہ عین وقت پہ کسی کی جاب آڑے آ جاتی ہے ،کوئی گھر،سسرال اور بچوں کےکسی مسئلے میں گھر جاتا ہے سو شاز و نادر ہی سب کے سب جمع ہو پاتے ہیں.ان محفلوں میں مزید بہتری آئ اور کھانے کے علاوہ ہم نے مختلف تجربات بھی شروع کیے یوں کچھ نئی جگہیں بھی دیکھنے کا موقع ملا اور پرانی جگہوں کو بھی نیے انداز سے دریافت کیا ،زندگی کچھ پرانی ڈگر پہ واپس آئی۔
دراصل انسان کے اندر کا بچہ ایک اٹتینشن سیکر ہوتا ہے جو ہمہ وقت محبّت.اہمیت اور توجہ کا طالب و منتظر رہتا ہے .ہم لوگ بڑے ہوتے جاتے ہیں اور اس بچے پہ ظلم
کر کے اسکی ننھی ننھی خوشیاں ،جوش اور کھلکھلا ہٹیں اپنے اندر دفن کرتے رہتے ہیں
ارے یہ کیا چونچلے بازی ہے، سالگرہ تو بچوں کی ہوتی
ہے.ناصرف سالگرہ بلکے اندر اٹھنے والی بہت سی چھوٹی چھوٹی ایکسائٹمنٹس اور خواہشیں “لوگ کیا سوچیں گے ” اور ” اچھا نہیں لگتا ” کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔
چاہے اپنا دل کتنا ہی مچل رہا ہو یا خود کو کتنا ہی اچھا کیوں نہ لگ رہا ہو .ہم میں سے اکثر لوگ کبھی یہ سوچ کے کہ لوگ انکے بارے میں کیا سوچیں گے اور کبھی فقط دوسروں کے سامنے اپنے آپ کو “بڑا ” اور “مدبر” ثابت کرنے کے لئے آہستہ آہستہ خود پہ زبردستی کا خول چڑھا کھل کے ہنسنا ، کھیلنا کودنا ، گنگنانا اور چھوٹی چھوٹی خوشیاں منانا بھی چھوڑ دیتے ہیں لیکن چونکے اندر کا بچہ اہمیت کا متلاشی ہے سو اسکی تسکین دوسرے طریقوں سے کی جاتی ہے جو اکثر نہ صرف آس پاس والوں کے لئے بلکے خود اپنے لئے بھی منفی ثابت ہوتی ہے مثلا مخلتف موقعوں پہ اپنی اہمیت جتانا ،چھوٹوں پہ ناراض ہونا ،ہمیں پہلے کیوں نہیں بتایا یا ہمیں فلاں کام کی اطلاع دیر سے کیوں ہوئی جیسی باتوں پہ غصّہ کرنا.خوشی کے موقعوں پہ روٹھ جانا اور پھر دوسروں کا فرض سمجھنا کہ ہمیں منایا جائے .کسی کے ہاں خاص موقعوں پہ فقط اسلئے بسورتا چہرہ بنا کے بیٹھنا کہ لوگوں کی توجہ اپنی طرف کی جا سکے.یہ سب مثالیں دراصل اپنی اہمیت اجاگر کرنے کے بہانے ہیں جو اگر اپنی شخصیت پہ چڑھا جھوٹا خول توڑ کر ،اپنے آپ کو اہمیت دے کر اور اپنی مرضی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں منا کے خود کو دے دی جائیں تو آپ خود بھی خوش رہیں اور باقی لوگ بھی آپ کو اچھے لفظوں میں یاد رکھیں نہ کہ آپکو خاص طور پہ صرف اسلئے اہمیت دی جائے کہ کہیں آپ رنگ میں بھنگ نہ ڈال بیٹھیں۔
برتھ ڈے نہ سہی ،خوشی کوئی بھی ہو حسب استطاعت فورا منا لینی چاہیے .اپنی زندگیوں میں جوش اور ایکسایٹمنٹ کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور تلاش کریں چاہے وہ کسی کھیل کی صورت ہو یا کسی شوق کی صورت۔
ایک ڈگر پہ چلتی زندگی بھی یکسانیت سے اکتا جاتی ہے اور اسکو بھی نئے راستے درکار ہوتے ہیں.اپنے بارے میں سوچیں ،اپنے آپ کو دریافت کریں کوئی ایکٹیویٹی ،کوئی کورس ، کوئی نہ کوئی کام ایسا کریں جس سے آپ کو خوشی ملتی ہو۔جب آپ خوش اور تازہ دم ہونگے تو اپنے اطراف کے لوگوں کو بھی خوش رکھ سکیں گے۔چھوٹی چھوٹی باتوں پہ خوش ہونا سیکھیں اور اپنے اندر کے بچے کو جگاے رکھیں کیونکے یہی آپکو زندہ دل رکھتا ہے اور زندگی میں توانائی کے ساتھ آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
*
نوٹ۔ تصویریں پچھلے سال کی ہے،سالگرہ کل ہے اور مجھے برتھ ڈے کے اچھے اچھے میسجز پڑھنا بہُت اچھا لگتا ہے
*
قرۃ العین صبا

(Visited 1 times, 1 visits today)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *