تحریر: قرۃ العین صبا
غصّے کے مارے میرا برا حال تھا، دو بار کھانا لگانے کے لیے آوازیں لگا چکی تھی لیکن لگتا تھا سب کہیں جا کے سو گئے ہیں۔میں کھانا پکا کے ابھی کچن سے نکلی تھی۔
“یہ گھر ہے یا کباڑ خانہ” پہلی سوچ بس یہی سوجھی۔
سب مل کے پھیلاو اور سمیٹنے والا ایک ،کوئی اچانک گھنٹی بجا دے تو سب کے ہاتھ پیر پھول جاتے ہیں لیکن اتنا نہیں ہوتا کہ گھر میں داخل ہوں تو موزے جوتوں میں رکھ کے الماری میں ہی رکھ دیں ،جیکٹ لٹکا دیں۔ میرا پارا چڑھا ہوا تھا ۔ بیٹی نے موڈ بھانپ کے چپ چاپ سے چیزیں سمیٹنا شروع کر دییں اور بیٹے صاحب نے ویکیوم سنبھال لیا۔
لیکن مجھے بھی آج پتہ نہیں کیا ہو گیا تھا۔
اور یہ لانڈری ،کونسی انوکھی لانڈری ہوتی ہے ہمارے
ہاں جو پورا ہفتہ چلتی رہتی ہے، اپنے اپنے کپڑے دھونے کی ڈیوٹی گھر میں سب سنبھال چُکے تھے لیکن اسکا نقصان یہ ہوا تھا کہ پورا ہفتہ یہ سلسلہ چلتا ہی رہتا تھا۔
کپڑے تو مشین دھوتی سکھاتی ہے اسمیں کیا کمال لانڈری جب ہو کہ کپڑے الماریوں تک پہنچیں، صوفوں اور کرسیوں پہ ڈھیر نہ لگے ہوں، جس طرف دیکھو کپڑے۔
مجھے خود نہیں پتہ تھا کہ مجھے کیا ہو رہا ہے ، شاید آج رنویشن والے تیسری بار کاؤنٹر کی لمبائی لینے آئے تو میں پھٹ ہی پڑی ایک تو پہلے ہی گھر میں مرمت اور رنگ و روغن کا بکھیڑا چل رہا تھا، ہر چیز پہ نظر آنے والی دھول نے کوفت میں مبتلا کیا ہوا تھا پھر یہ اچانک افتاد، اوپر سے ہر آنے والا اوپر سے نیچے تک کچن، باتھ روم ہر جگہ جھانکتا پھرے، اچھی مصیبت ہے ۔
اور یہ پودے! اب توپوں کی سمت بدل گئی تھی ،جنگل بنائے جا رہے ہیں تمہارے والد صاحب(یہ میں نے آہستہ سے کہا کیونکہ والد صاحب کمرے میں ہی موجود تھے) اب چیخ پُکار بڑبڑاہٹ میں بدل گئی تھی۔
بس پودے لینے کا شوق ہے یا زیادہ سے زیادہ پانی ڈال دیا نہ کانت چھانٹ نہ کوئی مناسب جگہ، ہر چیز منہ کو آ رہی ہے۔
کیا مصیبت ہے ،کیا ہو رہا ہے مجھے ،میں نے گویا خود سے لڑتے ہوئے پانی کا گلاس بھر کے پی لیا پھر کچن میں تھوڑی اٹھا پٹک کے بعد غصے میں اپنے لیے کھانا گرم کیا اور روٹی پلیٹ میں ڈال کھانے کی میز پہ آ بیٹھی۔ میں بھی نہیں پوچھوں گی کسی سے کھانے کا۔اپنی بھوک کا جو بھی حال ہو پہلے سب کا کھانا پکاو پھر لگاؤ پھر آوازیں دیتے پھرو تو سب اپنی مرضی سے آتے ہیں اور کبھی کبھی نہیں بھی آتے ادھر آدمی اِنتظار میں سوکھتا رہے۔ میں نے روٹی توڑ کے گرم گرم قورمے کا نوالہ بنایا
ایک سرور سا جیسے اندر تک اُتر گیا۔
واہ!
آج تو میں نے جیسے چمچہ ہی توڑ دیا ہے کیا شاندار قورمہ بنا ہے!
ذائقہ جیسے میری زبان سے لیکر آنتوں تک گھل گیا تھا اور پھر توے سے اتری گرما گرم روٹی ۔میری سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں جیسے ہر نوالے کے ساتھ واپس آتی جا رہی تھیں۔
کیا ہو جاتا ہے مجھے ،خواہ مخواں ہی جاہلوں کی طرح چیخنے بیٹھ جاتی ہوں۔میرے چیخنے پیٹنے سے کیا چیزیں صحیح ہو جائیں گی؟ میں نے روٹی سے چکن کی خستہ ہوتی بوٹی کو مصالحہ میں سمیٹا۔
اب یہ کنٹریکٹر تین بار کاؤنٹر کا ناپ لینے آئے تو
اسمیں بیچارے گھر والوں کا کیا قصور ؟ لاکھ گھر سمیٹ لو جب تک کام ختم نہیں ہو جاتا سب صلواتیں بیکار ہیں۔
کھانا پیٹ میں جاتا جا رہا تھا اور میری سوچ مثبت ہوتی جا رہی تھی۔
میں نے ایک گھونٹ پانی کا بھرا
سب کچھ تھوڑی دیر پہلے جیسا ہی تھا لیکن اطراف کے لوگ اور آس پاس کی دنیا مجھے اب کافی بہتر نظر آ رہی تھی۔
یہ ہوا کیا ہے آخر، میں نے سوچا۔
پھر مجھے اندازہ ہوا کہ نہ بچوں نے کچھ کیا تھا ،نہ اچانک وارد ہونے والے ٹھیکیدار میں میاں کا کوئی قصور تھا، اور نہ ہی مجھے پھیلاوا اتنا دکھ دے رہا تھا
دراصل
۔
۔
۔
۔
مجھے بھوک لگ رہی تھی
.……………….………………………………………………….
نوٹ: جنہیں اپنی بھوک سے پہلے پورے گھر کے کھانے کی فکر رکھنی ہو اُنہیں ہمیشہ اپنی بھوک اور صحت کو مقدم رکھنا چاہیے۔
سب سے پہلے اپنا خیال رکھیں تاکہ سب کا محبت سے خیال رکھ سکیں!
کیا آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے؟
(Visited 1 times, 1 visits today)