(دخترِ مشرق ( بھٹو لیگیسی فاؤنڈیشن

“دخترِمشرق” محترمہ بینظیر بھٹو کی آپ بیتی ہے جس کا پہلا ایڈیشن نومبر 1988ء میں لندن کے معروف اشاعتی ادارے نے “Daughter of the East” کے نام سے شائع کیا۔ بعدازاں 2007ء میں اس کتاب کا جدید ایڈیشن شائع ہوا اور پھر “بھٹو لیگیسی فاونڈیشن” کے زیر اہتمام 2011ء میں اس کتاب کا اردو ایڈیشن شائع کیا گیا۔
یہ کتاب اپنے اندر زمانوں کا حال اور بھٹو خاندان کی گھریلو، سیاسی اور سماجی جدوجہد کا احوال سموئے ہوئے ہے۔ کتاب کے دیباچے کے الفاظ ایک مضبوط عورت کی زندگی کا عکس ہیں۔ جیسے:

“میں نے اس زندگی کا انتخاب نہیں کیا، اس نے میرا انتخاب کیا۔
میری پیدائش پاکستان میں ہوئی۔ میری زندگی میں ہلچل، رنج و الم اور فتوحات سبھی کچھ منعکس ہوتا ہے۔”

“پاکستان کوئی معمولی ملک نہیں اور میری زندگی بھی معمولی زندگی نہیں ہے۔ میرے والد اور دو بھائیوں کو قتل کر دیا گیا۔ میری والدہ، میرے شوہر اور مجھے قید خانے میں ڈالا گیا۔ میں نے ایک طویل عرصہ جلا وطنی میں گزارا۔ مشکلات اور اندوہناک زندگی کے باوجود میں مطمئن ہوں۔ مجھے اطمینان ہے کہ میں نے اسلام کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم منتخب ہو کر پرانی روایتوں اور رسوم کا قلع قمع کیا۔ الیکشن کے دنوں میں عالمِ اسلام میں یہ چبھتا ہوا سوال زیرِ بحث تھا کہ اسلام میں ایک خاتون کا کیا کردار ہے؟ آخر میں یہ ثابت ہوا کہ ایک عورت وزیرِ اعظم منتخب ہو سکتی ہے، ایک ملک کی حکمران ہو سکتی ہے، مردوں اور عورتوں کی واحد رہنما ہو سکتی ہے۔ میں اس عزت افزائی پہ پاکستان کے لوگوں کی شکر گزار ہوں۔ اگرچہ جدت پسندوں اور انتہا پسندوں میں یہ بحث ابھی تک جاری ہے۔ عالمِ اسلام میں عورتوں نے قدم آگے بڑھایا ہے اور جب میں نے 2 دسمبر 1988ء کو وزارتِ عظمی کا حلف اٹھایا تو اس کے بعد یہ قدم آگے ہی بڑھے ہیں۔”

کتاب کا پہلا باب “میرے والد کا قتل” ہے۔ اگلے نو ابواب “عرصہ حراست“ کے مرکزی عنوان کے تحت ہیں اور آخر کے سات ابواب “ڈکٹیٹر کو چلینج” کے زیرِعنوان ہیں۔ آخری باب “وزارتِ عظمی اور اسکے بعد“ کا اضافہ 2007ء کے ایڈیشن میں کیا گیا ہے۔

محترمہ کی مشکل زندگی اور جدوجہد پہ مبنی یہ کتاب ایک عام پاکستانی کے لئے انکے کئی نئے روپ سموئے ہوے ہے اور پڑھتے ہوئے بلا مبالغہ کہیں کہیں قاری کے رونگٹے کھڑےکر دینے کے لئے کافی ہے۔ جیسے یہ دو اقتباسات:

“میں 2 اپریل کی صبح فوج کی طرف سے فراہم کردہ چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی جب میری والدہ اچانک کمرے میں داخل ہوئیں۔ انہوں نے میرے گھریلو نام سے پکارا….. “پنکی”…. یہ ایسا لہجہ تھا کہ میرا تمام جسم اکڑ گیا۔ ”باہر فوجی افسران کا کہنا ہے کہ ہم دونوں آج تمہارے والد سے ملاقات کر لیں۔ اس کا کیا مطلب ہے؟” مجھے فہم تھا کہ اسکا کیا مطلب ہے۔ اسی طرح میری والدہ بھی جانتی تھیں۔لیکن ہم دونوں اس بات کا اعتراف کرنے کو تیار نہیں تھیں۔ یہ دن عمومی طور پر میری والدہ کی ملاقات کا دن تھا۔ انہیں ہفتے میں ایک بار ملنے کی اجازت تھی۔ میری ملاقات ہفتے کے آخر میں متعین تھی۔ اب وہ ہم دونوں کو اکھٹے ملاقات کے لئے جانے کو کہہ رہے تھے۔ اسکا مطلب تھا کہ یہ ہماری آخری ملاقات ہوگی۔ ضیاء نے میرے والد کے قتل کا فیصلہ کر لیا تھا ۔”

“ہمارے بتاے بغیر دونوں بچے سمجھ گئے تھے کہ کیا فیصلہ ہونے والا ہے۔ میں زندگی بھر یہ نظارہ نہیں بھول سکتی کہ بلاول سفید قمیص اور نیلی دھاریدار پتلون، سفید جرابوں اور کالے بوٹوں میں راہداری کے فرش پر دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا ہوا تھا۔ وہ خاموشی سے مجھے گھور رہا تھا جب میں نے بختاور کو اٹھایا اور اسے پیچھے چھوڑ دیا۔ کوئی ماں اپنے دو سالہ بچے کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتی۔ کسی بچے کو یہ احساس نہیں دلانا چاہیے کہ اسکی ماں ایک بچے کو ساتھ لے جا رہی ہے اور دوسرے کو پیچھے چھوڑ رہی ہے۔”

بلا شبہ “دخترِ مشرق” ایک جاندار کتاب ہے جو پڑھنے والوں کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ کتاب میں محترمہ کی زندگی کی کچھ بلیک اینڈ وائٹ اور رنگین یادگار تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں جن سے کتاب کی خوبصورتی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

قرۃ العین صبا

(Visited 1 times, 1 visits today)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *