(صدبرگ (پروین شاکر

صد برگ (مراد پبلیکیشنز)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو شاعری میں پروین شاکر کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ آپ شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ استاد بھی رہیں اور سول سروسز سے بھی وابستہ رہیں۔ ان کے بارے میں دہلی ریکارڈ لکھتا ہے کہ
“She has given the most beautiful female touch to Urdu poetry”
پروین شاکر کی زیر نظر کتاب “صد برگ” 1980ء میں شائع ہوئی۔ پروین شاکر کی تحریر کی خوبصورتی یہ ہے کہ نہ صرف آپکی شاعری بلکہ کتاب کے آغاز میں لکھی ہوئی نثر میں بھی موتی پروئے ہوئے محسوس ہوتے ہیں، جیسے صدبرگ کے آغاز میں لکھی ہوئی یہ تحریر:

“صدبرگ کے آتے آتے منظرنامہ بدل چکا تھا….
میری زندگی کا بھی اور اس سرزمین کا بھی جس کے ہونے سے میرا ہونا ہے……..
رزم گاہ جاں میں ہم نے کئی معرکے ایک ساتھ ہارے اور بہت س خوابوں پر اکھٹے مٹی برابر کی… شام غریباں کی پینٹنگ کیسی بنے گی؟ کوفہ شہر کے منارے سبز تو نہیں ہوسکتے نہ۔
سچائی جب مخبروں میں گھر جائے تو گفتگو علامتوں کے سپرد کردی جاتی ہے…
ایک بار پھر… صدبرگ اور آپ اکھٹے ہو رہے ہیں۔”

اور کتاب کے دیباچے میں لکھے ہوئے یہ چند خوبصورت اقتباسات:

“بستی میں برفباری ہوئی تو لوگوں نے اپنے ہاتھ تاپنے کے لئے گھر ہی جلا دیئے اور جب تمام بستی شعلوں کی لپیٹ میں آ گئی تو سارے ہاتھ بلند تھے مگر کسی کو سورۃ ابراہیم یاد نہ تھی!

بہار کی دھوپ جب شہر کا رنگ جلانے لگے تو سورج سے حرارت کی بجائے پناہ مانگی جاتی ہے لیکن بارش ہوئی تو کھلا کہ اپنے شہر کا رنگ ہی کچا تھا!”

“مگر جب زندگی کے میلے میں رقص کی گھڑی آئی، تو سنڈریلا کی جوتیاں ہی غائب تھیں، نہ وہ خواب تھا، نہ وہ باغ تھا، نہ وہ شہزادہ، اچھے رنگوں کی سب پریاں اپنے طلسمی دیس کو اڑ چکی تھیں اور لہولہان ہتھیلیوں سے آنکھوں کو ملتی شہزادی جنگل میں اکیلی رہ گئی….اور جنگل کی شام کبھی تنہا نہیں آتی! بھیڑیے اس کے خاص دوست ہوتے ہیں! شہزادی کے بچاؤ کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اسے ایک ہزار راتوں تک کہانی کہنی ہے… اور ابھی تو صرف 27 راتیں ہی گزری ہیں!

مادرزاد منافقوں کی بستی میں زیست کرنے کا کوئی اور ہنر نہیں…..اور ہوا سے بڑھ کر اور کون منافق ہوگا کہ جو صبح سویرے پھول کو چوم کر جگاتی بھی ہے اور شام ڈھلے اپنے حریص ناخنوں سے اس کی پنکھڑیاں بھی نوچ لیتی ہے… قیمت شگفت چکانے میں جاں کا زیاں تو ایسی کوئی بات نہیں، مگر یہ پنکھڑی پنکھڑی ہو کر دربدر پھرنا یقینا دکھ دیتا ہے۔ ہوا کا کوئی گھر نہیں وہ کسی سر پر چھت نہیں دیکھ سکتی!

محنتیں آندھیوں سے منسوب نہ سہی مگر ہوا کے ہوتے ہوئے ثمر کا شجر سے ربط رکھنا بھی محال ہے۔ لیکن شجر کتنا ہی ویران کیوں نہ ہو، امید بہار پیوستہ ہے، پھول کتنا ہی پامال کیوں نہ ہو، اچھے دنوں پر یقین کرنے والے، کوئی نہ کوئی شگون لے ہی لیتے ہیں۔ صدبرگ بھی تمام تر ریزہ ریزہ ہونے کے باوصف اس یقین پر مہر اثبات ہے۔۔۔ اور اس یقین کی کوئی ننھی سی کرن آپ کے دل تک بھی اتر سکے تو میں سمجھوں گی کہ میرے وجود کی ایک پنکھڑی رزق ہوا ہونے
سے بچ گئی!”
پروین شاکر

اور پھر سونے پر سہاگہ، کہیں خوشبو، کہیں درد، کہیں محبت اور کہیں بغاوت جھلکاتی صدبرگ میں تحریر ان کی شاعری:

تراش کر میرے بازو اڑان چھوڑ گیا
ہوا کے پاس برہنہ کمان چھوڑ گیا

رفاقتوں کا میری اُس کو دھیان کتنا تھا
زمین لے لی مگر آسمان چھوڑ گیا

عجیب شخص تھا بارش کا رنگ دیکھ کر بھی
کھلے دریچے پہ اک پھول دان چھوڑ گیا

جو بادلوں سے بھی مجھ کو چھپائے رکھتا تھا
بڑھی ہے دھوپ تو بے سائبان چھوڑ گیا

نجانے کون سا آسیب دل میں بستا ہے
کہ جو بھی ٹھہرا وہ آخر مکان چھوڑ گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی
سائے سے مگر اس کو محبت بھی بہت تھی

خیمے نہ کوئی میرے مسافر کے جلائے
زخمی تھا بہت پاؤں مسافت بھی بہت تھی

کچھ تو ترے موسم ہی مجھے راس کم آئے
اور کچھ مری مٹی میں بغاوت بھی بہت تھی

پھولوں کا بکھرنا تو مقدر ہی تھا لیکن
کچھ اس میں ہواؤں کی سیاست بھی بہت تھی

خوش آئے تجھے شہرِ منافق کی امیری
ہم لوگوں کو سچ کہنے کی عادت بھی بہت تھی

نظم “شگون” جس میں کمال خوبصورتی سے اک رسم کو خیال سے جوڑا گیا ہے:

سات سہاگنیں اور میری پیشانی
صندل کی تحریر
بھلا پتھر کے لکھے کو کیا دھوئے گی
بس اتنا ہے
جذبے کی پوری نیکی سے
سب نے اپنے اپنے خدا کا اسم مجھے دے ڈالا ہے
اور یہ سننے میں آیا ہے
شام ڈھلے جنگل کے سفر میں
اسم بہت کام آتے ہیں!

یا پھر نظم “تو نے کبھی سوچا” کا ایک منفرد لہجہ

گلہ کم گوئی کا مجھ سے بجا ہے
لیکن ا ے جان سخن
تو نے کبھی سوچا!
کہ تیری سمت جب میں آنکھ بھر کر دیکھتی ہوں تو
میری ہلکی سنہری جلد کے نیچے
اچانک
اتنے ڈھیروں ننھے ننھے سے دیئے کیوں جلنے لگتے ہیں؟

قرۃ العین صبا

– منتخب کتابوں پر مختصر اور دلچسپ تبصرے پڑھنے کے لئے ہمارا پیج “Adeeb-Online” لائک کیجئے اور اپنے دوستوں کو بھی تجویز کریں.

– ہماری پروموشن ویب سائٹ www.adeeb-online.com بھی لائیو کر دی گئی ہے جہاں آپ اپنے ای میل سے رجسٹر کر سکتے ہیں.

(Visited 28 times, 1 visits today)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *