“بڑے بڑے گھروں میں لوگ بار بار گم ہو جاتے ہیں اور انکو بار بار ڈھونڈنا پڑتا ہے”۔
ایسے کتنے ہی خوبصورت جملے تھے جو وہ اپنے کرداروں توسط سے ہم تک پہنچا دیتی تھیں اور وہ اندر ذہن کے کسی نہاں خانے میں جا کے سوچ میں جذب ہو جاتے تھے۔
حسینہ معین چل بسیں!
کل اُنکے انتقال کی خبر ملی تو بہت رنج ہوا۔ حسین کہانیوں اور ڈراموں کا ایک عہد رخصت ہوا۔ اُنکے الفاظ نے کہانیوں کی صورت جس طرح تفریحی اور خوبصورت انداز میں ہمارے معاشرے کی سوچ کو مثبت روش پہ ڈالنے کی کوشش کی تھی اللّٰہ تعالیٰ انکو اسکا اجر عطا فرمائے اور اُنکے درجات بلند کرے۔ آمین۔
کچھ مہینے پہلے کی بات ہے
ہم “فریش کو” پہ ہفتہ وار گروسری اور سبزیوں کی جانچ پڑتال میں مصروف تھے کہ موبائل میں ٹن ٹن ہوئی ۔کبھی کبھی سارے نوٹیفکشن کی گھنٹیاں بند کر کے قسم کھا لو کہ اب اس موئی مشین کو کم از کم گھنٹہ بھر نہیں دیکھیں گے تب بھی کچھ نہ کچھ بج ہی جاتا ہے پھر خود کو چاہے کتنا ہی روکو فون پہ نظر ڈالے بغیر قرار نہیں آتا ۔ نام کچھ جانا پہچانا لگا
حسینہ معین؟ ان کہی،تنہائیاں،دھوپ کنارے؟ کچھ نام صرف نام نہیں ہوتے اُنکے ساتھ اُنکے کئی حوالے جُڑے ہوتے ہیں۔کمنٹ ایک گروپ پہ بارش پہ لکھی تحریر پہ آیا تھا ۔پہلے تو سوچا کہ کسی نے اُنکے نام کی فیک آئی ڈی بنائی ہوگی لیکن اکاؤنٹ چیک کیا تو اصلی لگا پھر کیسی گروسری کہاں کی سبزیاں بس دماغ میں کھد بد ہوتی رہی۔جن کے ڈرامے دیکھ کے ہم بڑے ہوئے انکی پسندیدگی سند کی سی حیثیت رکھتی ہے۔
ڈرامے بھی کیا شاہکار تھے۔سب سے اچھی بات تھی لڑکیوں کے باوقار اور مضبوط کردار۔ اُن ڈراموں میں عورت رلتی پٹتی نہیں تھی نہ ایسی شاطر اور مکار تھی کہ ہمہ وقت گھریلو سازشوں میں مصروف رہے اور نہ معاشرے کی قدروں سے مادر پدر آزاد, بلکہ پڑھی لکھی تھی، خواب دیکھتی تھی، ذمےداریاں اٹھاتی تھی اور زمانے کے ساتھ قدم ملا کے چلنے کا ہنر بھی جانتی تھی۔کتنی لڑکیاں ہونگی جنھوں نے دھوپ کنارے کے بعد ڈاکٹر بننے کا سوچا ہوگا(ہر چند کہ سب کی قسمت میں ڈاکٹر احمر نہیں ہوتے ) ،کتنی ہونگی جو تنہائیاں کی بزنس ویمن سے متاثر ہوئی ہونگی۔
خاندان کا تصّور جتنا خوبصورت اور رشتوں کی خوشبو میں گندھا ہوا اُنکی کہانیوں میں دکھایا جاتا تھا اب دیکھو تو دل دکھتا ہے۔
ڈراموں کے متعلق شکایت کرو تو کہتے ہیں کہ ہم وہ دکھاتے ہیں جو معاشرے میں ہوتا ہے حالانکہ میڈیا کا کردار ہوتا ہے آگاہی فراہم کرنا ،معاشرے کو نیا تاثر دینا، سوچ کو مثبت زویوں پہ استوار کرنا تو اصولاً دکھانا تو وہ چاہیے جیسا کہ ہونا چاہیے ورنہ نئی سوچ اور انسپریشن کہاں سے آئیگی؟
بد قسمتی سے آجکل ڈراموں کی بھرمار میں گنتی کے کچھ ہونگے جو سب مل کے دیکھ سکیں یا جن سے کچھ اچھا پیغام مل سکے۔ عجیب سی کہانیاں،عجیب سے کردار، متنازعہ موضوع اور زبان و لہجہ تو لگتا ہے ہم بھول ہی گئے ہیں ۔جو کچھ دکھایا جاتا ہے وہی سوچ ذہنوں کی تربیت بھی کرتی ہے اور آہستہ آہستہ معاشرہ بھی وہی سب اپنانے لگتا ہے ۔
ان کہی تو پتہ نہیں کتنی بار دیکھا ،دھوپ کنارے جب بھی دیکھیں اچھا لگتا ہے۔ تنہائیاں بچپن کا فیوریٹ ہے،اُسکی دھن اور آخر میں بند ہوتا لکڑی کا بڑا سارا دروازہ اب بھی وہ زمانے جگا دیتا ہے ۔
” ان کہی” کے پیارے سے ماموں ہمیشہ بہت اچھے لگتے تھے،”دھوپ کنارے” میں ڈاکٹر احمر کے والد اور “ان کہی” میں عبیر کے والد کی باتیں شاید اسوقت سر سے گزر جاتی تھیں پر پھر بھی پتہ نہیں کیوں متاثر کرتی تھیں اور شاید اپنا اثر بھی چھوڑ جاتی تھیں” تنہائیاں” کی مضبوط اور اسمارٹ سی آنی سے ہم ایمپریس ہو جاتے تھے اور بھی ہے شمار کردار اور سین ہیں کہ بات کرنے بیٹھیں تو وقت کم پڑ جائے۔
آئیے آج حسینہ معین صاحبہ کی یاد میں اُنکے ڈراموں، کرداروں ،جملوں اور کہانیوں کے ساتھ اپنی یادیں دہراتے ہیں۔
کمنٹ میں بتائیے. اُنکے ڈراموں میں
آپکا پسندیدہ ڈرامہ کونسا ہے؟
کوئی ایسا کردار جو بہت پسند آیا اور جس نے بہت متاثر کیا؟
کوئی ایسا جملہ جو ذہن میں جذب ہو کے ہمیشہ کے لیے ایک یاد بن گیا؟
اللہ اُنہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ،آمین