(دوسرا حصہ) “امی کی “جگ بیتی

( امی کی کتاب “جگ بیتی” کے تعارف میں لکھا گیا مضمون جو اُنکی کتاب میں بھی موجود ہے )
بچپن میں ایک بار جب امی سنار کے ہاں کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اپنی کسی چوڑی کی قربانی دینے گئیں تو میں بھی اُنکے ساتھ تھی بلکہ گھر میں سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے میں اکثر اُنکے ساتھ ہی ہوتی تھی۔ جب سنار نے خریدنے کے بعد چوڑی کو ہلکے سے موڑا تو پتہ نہیں کیوں مجھے بلکل اچھا نہیں لگا لیکن کبھی مجبوری تو کبھی ضرورت اور کبھی کبھی ہماری چھوٹی بڑی خوشیوں کو پورا کرنے کے لیے ایسی قربانیاں اُنکی زندگی کا حصہ تھیں ۔ایک بار ایسی ہی کسی ضرورت کو پورا کرنے کے طفیل ہمیں فشنگ گیم کا تحفہ بھی ملا جو گویا اس زمانے میں ایک لگژری کھلونا اور ایک خواب کی مانند تھا ۔اسے واقعتاً ہم نے سال ہا سال برتا بلکہ بڑے ہونے تک وہ ہمارے پاس رہا ۔اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ سونے اور زیورات سے کبھی دلی لگاؤ یا رغبت محسوس نہیں ہوئی اور اسکی اہمیت بڑے ہونے کے بعد بھی ہمیشہ بس فشنگ گیم جتنی یا اس سے کچھ کم ہی رہی۔
اسی طرح ایک بار بچپن میں ہماری خوشی کے لیے غالباً روزہ کشائی کا اہتمام کیا گیا لیکن مہمانوں کو بلاوا دیتے وقت یہ ضرور کہا جاتا کہ ” اتنی ضد کر رہی تھی، نماز پڑھ کے دعائیں مانگی جا رہی تھیں تو سوچا کر دیتے ہیں ” جب دو سے تین بار یہ سننے کو ملا تو ہمیں غصّہ آگیا کہ آخر یہ سب سے کہنے کی کیا ضرورت ہے ۔امی نے جواب دیا مصلحتاً کہنا پڑتا ہے ورنہ سب کی باتیں سنی پڑتی ہیں۔ یہاں میرا اور انکا ہمیشہ اختلاف یا لڑائی رہی، جتنی چڑ مجھے لوگوں کے خوف سے رہی اتنی ہی یہ فکر لاشعوری طور پہ میرے اندر منتقل ہو کر میرا احاطہ کیے گئی اور مجھے خود سے اور اس فکر اور خوف سے آگے بڑھنے کے لیے بہت سارے مقامات پہ لڑنا پڑا۔
سنا ہے اچھے وقتوں میں جب ابّا حیات تھے تو اُنہیں مختلف ساز بجانے کا شوق تھا، امی کی آواز اچھی تھی۔وہ کبھی موڈ میں آ کے ستار بجاتے تھے اور امی گایا کرتی تھیں مگر
جب سے ہم نے ہوش سنبھالا تو ماں کے روپ میں اپنے پاس ایک فکر مند،پریشان، گھبرائی ہوئی لیکن بہت سے محاذوں پہ اپنے بچوں کی خوشیوں کے لیے مضبوطی سے ڈٹی شخصیت کو پایا،وہ کہتی ہیں میں نے کسی مرغی کی طرح اپنے پروں میں پانچوں بچوں کو چھپا کے اُنہیں پالا ہے اور شاید ٹھیک ہی کہتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں بیوہ ہو جانا کسی عذاب سے کم نہیں۔ آپکو اپنے خرچہ پہ اچھا پہنے ،کھانے اور خوش ہونے کے لیے بھی لوگوں کو جواز دینا پڑتا ہے،اب کچھ بدلاؤ آ رہا ہے جو کہ خوش آئند ہے لیکن آج سے چالیس برس پہلے کی دنیا خاصی مختلف تھی۔ایسے میں زندگی کے مسلسل اُتار چڑھاؤ سے ہمارے عجیب سے مشرقی معاشرے میں ایک عام گھریلو عورت کا لوگوں اور حالات سے نبرد آزما ہونا بڑا مشکل تھا۔
مجھے منی بسوں کے سفر سے سخت اُلجھن ہوتی تھی کبھی بس کے بجائے رکشے کی فرمائش کرتی تو امی اُسکا موازنہ کسی کھانے کی چیز سے کر دیتں کہ ارے اتنے میں تو ایک بڑا مکھن آ جائیگا میں چڑ جاتی اب مکھن پہ بیٹھ کے تو جانے سے رہے۔
سب سے مصیبت گھڑیاں مجھے وہ لگا کرتی تھیں جب بچپن میں مجبوراً پیلے رنگ کی چھوٹی والی این 1 یا جی 11 کی بس میں ڈرائیور کے ساتھ آگے بیٹھنا پڑ جاتا ،میری دعا ہوتی کے بس اب آگے یہ کسی اور خاتون کو بٹھانے کے لیے ویگن نہ روکے اور ہمارا اسٹاپ آجائے کیونکہ ڈرائیور کی خواہش ہوتی کہ دو کی جگہ چار بیٹھ جائیں اور سواریاں اسکے گیر تک پہنچ جائیں اس بات پہ ہمیشہ تکرار ہو جاتی۔اب کبھی میں رات گئے اپنی گاڑی خود چلاتی کینیڈا کی کبھی سنسان کبھی آباد سڑکوں پہ نکلتی ہوں تو منی بسوں کے سارے سفر اور اس میں اُن نظروں اور آلودہ ذہنوں سے خود کو سمیٹتی بچاتی خواتین یاد آجاتی ہیں۔ عجیب لگتا ہے کہ ہمارے ہاں اکیسویں صدی میں بھی خواتین کو کیسے کیسے مسائل درپیش ہیں۔
امی نے ابّا کے بعد بڑی ہمت کر کے ڈرائیونگ سیکھی ،ایک گاڑی بھی لے لی لیکن پھر بیچ دی۔کچھ عرصہ پہلے میں نے اُن سے شکایت کی کے کاش آپ تھوڑی اور ہمت کر لیتیں،گاڑی نہ بیچتیں تو اتنے سال ہم بسوں کے دھکوں سے بچ جاتے ۔اُنہونے کہا اسوقت اتنی عقل کہاں تھی۔اور ٹھیک بھی ہے آج بھی گاڑی لے کے خواتین سڑک پہ نکل جائیں تو کئی گاڑیاں یونہی قریب آ جاتی ہیں ،کنڈیکٹروں کا بس نہیں چلتا کہ وہ کھڑکی میں جھول جائیں اور موٹر سائیکل والے آنکھیں پھاڑ کر جھانکنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور تو اور راہگیر بھی جھانک کے ثواب دارین حاصل کرنا نہیں بھولتے اور پھر کہا جاتا ہے عورت اچھی ڈرائیور نہیں ہوتی تو صاحب کبھی عورت بن کے سڑک پہ نکلیں تو پتہ چلے۔یہ تو آج کی بات ہے تو سالوں پہلے جب فقط اکا دکا ایلیٹ کلاس کی خواتین ڈرائیو کرتی نظر آتی تھیں تو ایک متوسط طبقے کی عام سی خاتون کے لیے پیچھے سے شاید کسی تھپکی دینے، حوصلہ بلند کرنے اور کسی ہمت بڑھانے والے کا ہونا بہت ضروری تھا جو کہ موجود نہیں تھا۔
سفر گزر گیا، لیکن اسکی صعوبتوں میں وہ خود کہیں کھو گئیں۔ہم سے نکلتیں تو چھوٹے بھائی بہنوں کا غم لگا رہتا۔اُنکی شادی کے وقت چھوٹی بہنیں تین اور دو سال کی تھیں۔امی کی شادی سب سے پہلے ہوئی تو ماں باپ کا وقت اور سپورٹ انکو اور اُنکے بچوں کو بہن بھائیوں کی توجہ کے ساتھ بھرپور ملی۔اسکو امی نے ہمیشہ قرض جانا حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ماں باپ کی محبت کا قرض آپ کو اگر کسی کو لوٹانا ہوتا ہے تو وہ آپکی اپنی اولاد ہوتی ہے۔ نانا بہت پہلے گزر گئے اور نانی کے بعد وہ باقی بہن بھائیوں کی سپورٹ بن گئیں یوں مسئلے مسائل اور پیر کا چکر کبھی ختم نہ ہوا ۔
اسکے بعد ایک دور عجیب مذہبی رجحان کا دور بھی آیا جس کی بدولت باقی ماندہ مشغلے اور شوق بھی اندر کہیں جا دبے اور وقت گزر گیا۔ہم سب پڑھ لکھ لیے۔اپنے اپنے کیرئیر میں ترقی کرتے،شادیوں اور بچوں کے ساتھ اپنا خاندان ترتیب دیتے زندگی میں اپنی جگہ اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہو گئے۔امی کی زمہ داریاں ختم ہو گئیں۔
2015
میں جب وہ میرے پاس کینیڈا آئیں تو اُنہونے جگ بیتی کا فیسبک پیج بنانے کی فرمائش کی، یوں ہم دونوں نے کچھ وقت ساتھ لکھتے پڑھتے گزارا۔ہم کئی باتوں کو لکھتے ہوئے بیساختہ ہنسے، کئی لوگوں کی یادوں کی خوشبو کو ٹٹولا اور میں نے پہلی بار اُنکی ذات کے کئی پہلوؤں کو جانا۔مجھے پتہ چلا کہ خود ساختہ بزرگی کے خول میں لپٹی خاتون کے اندر کبھی ایک زندگی سے بھرپور شوقین مزاج لڑکی بھی پائی جاتی تھی جو کہ اپنا آپ منوانا چاہتی تھی اور زندگی کو بلکل میری طرح کھل کے جینا چاہتی تھی۔
“جگ بیتی” پھر انکا خواب انکا جنوں بن گئی اور مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد آج یہ کتاب آپ کے ہاتھ میں ہے ۔
میں نے امی سے جو سبق سیکھے اسمیں شکریہ گزاری سر فہرست ہے۔کتابوں اور لکھنے پڑھنے کا شوق بھی انکا اور ابّا کی طرف سے تحفہ اور ورثہ ہے۔اپنے اصل پہ فخر کرنا ،بناوٹ اور تضع سے بچنا ،مثبت سوچنا، ایمانداری اور سوشل ورک اور بہت کچھ مجھے بتائے بغیر اور میرے چاہے بنا میرے اندر منتقل ہو گیا۔
مجھے خوشی ہے کہ جگ بیتی مکمل ہوئی ۔یہ ہماری نسلوں کے لیے انکا ایک ورثہ ہے۔ اُمید ہے اُنکی زندگی کے اس عکس اور اُنکے اطراف بسنے اور اُنکی زندگی کے سفر کا حصہ بن کے گزر جانے والوں کی ان کہانیوں سے ہر کسی کو کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع ضرور ملے گا۔
مجھے خوشی ہے کہ وہ اب اپنے لیے جیتی ہیں ۔کینسر جیسی موزی بیماری سے ڈٹ کے دو دو ہاتھ کر چکی ہیں اور اب کچھ سالوں بعد دوبارہ ہمت اور حوصلےسے مسکراتے ہوئے اسکو شکست دینے کے لیے تیار ہیں ۔اُنکی ہمت کو داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔
ہماری امی کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں
اللہ تعالیٰ اُنہیں صحت اور سلامتی والی زندگی عطا فرمائے،آمین۔
*
ایک درخواست
“جگ بیتی” ادیب آن لائن کی ایپ پہ پڑھنے کے لیے فری موجود ہے۔ ایک کتاب کو لکھنے ،ترتیب دینے ،اسکی تزئین و آرائش کرنے کے پیچھے بے انتہا محنت ہوتی ہے ،کیونکہ کتاب کے شائع ہو جانے تک اس سے کوئی مالی فائدہ منسلک نہیں اسلیے میری درخواست ہے کہ اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شئر کریں تاکہ کتاب زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے۔
ایک تعاون جو آپ لوگ کر سکتے ہیں وہ “ادیب آن لائن” ایپ کی سبسکرپشن ہے جسکے ذریعے آپ نا صرف جگ بیتی بلکہ اُردو کی کئی اور کتابیں پورے سال کے لیے پڑھ سکتے ہیں۔یہ اپنی زبان کی حمایت اور محبت کا ایک انداز ہے۔
کتاب اور ایپ کا لنک پہلے کمنٹ میں موجود ہے ۔
آپکی محبتوں کا بہت شکریہ!
قرۃ العین صبا

(Visited 3 times, 1 visits today)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *