ایسا ہو نہیں سکتا کہ بچے کے آ س پاس کچھ دیکھیں اور وہ اسکا اثر نہ لے نہ اسکی نقل نہ کرے .اگر آپکا بچہ “پاپا پگ ” دیکھ کے “خر خر ” کرتا ہے یا بچی “منی بدنام ہوئی ” دیکھ کر منی والے آئٹم سانگ اسٹیپس کرتی ہے تو یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں .دراصل ہم سب ہی اپنے آس پاس کے تمام لوگوں،دیکھی جانے والی چیزوں اور اپنے اطراف کی ہر چیز کا شعوری یا لاشعوری طور پہ اثر لیتے ہیں.کسی کی کوئی عادت اچھی لگ گئی تو اسکو اپنانے کی کوشش ،کسی کے انداز کی لوگ تعریف زیادہ کرتے ہیں تو ہم میں سے اکثر لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کے ہم بھی اسکے جیسا انداز اپنایں ،کسی کا اوڑھنا پہنا بھانے لگتا ہے تو کئی لوگ یہ سوچے سمجھے بغیر کے آیا یہ انکی شخصیت سے مطابقت بھی رکھتا ہے یا نہیں ویسا ہی لباس اپنانے کی کوشش کرتے ہیں .دور حاضر میں یہ کام لوگوں کے سوشل میڈیا نے سمبھال لیا ہے ،اب سب لوگوں کی زندگیاں حسین ،خوبصورت اور پرفیکٹ نظر آتی ہیں بلکے سچ کہا جائے تو کئی کئی فلٹر لگا کے پرفیکٹ دکھائی جاتی ہیں اور لوگ بغیر سوچے سمجھے اور بغیر پس منظر جانے اسکی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں خیر یہ ایک الگ طویل موضوع ہے
.
بڑوں کے بر عکس بچے کا ذہن ایک نۓ نکور اسفنچ کی مانند ہوتا ہے جسمیں انکے ساتھ ہونے والی اور انکے آس پاس ہونے والی ہر چیز جذب ہوتی رہتی ہے اور موقع ملنے پہ نچڑ کے باہر آتی ہے ،چاہے وہ انکے آس پاس ہونے والی گفتگو کی صورت ہو ،اطراف کا ماحول ہو یا کسی بھی میڈیا کے زر یعہ ہو . اب یہ ذمے داری بڑوں پہ آئد ہوتی ہے کہ اس کورے ذہن میں کیا جذب کیا جائے.
اسی اور نوے کی دھائی میں انڈین فلمیں بہت عام تھیں.گھر میں وی سی آر تو نہیں تھا لیکن کبھی آتا تو بڑی ایکسائٹمنٹ ہوتی تھی ،اگرچے رات ہوتے ہی آنکھیں نیند سے مندی مندی ہو جاتی تھیں اور سارا زور لگا نے کے باوجود نیند کی پریاں اپنی آغوش میں لے لیتی تھیں اور صبح جب آنکھ کھلتی تو وی سی آر کے جانے کا ٹائم ہو جاتا ایسے میں اپنے اوپر اور اپنی نیند پہ بڑا ہی غصّہ آتا اور تفریح مس کر دینے پہ افسوس بھی ہوتا .سچ کہوں تو اس دور میں مناسب اور نا مناسب کی اتنی سمجھ بھی نہیں تھی فاسٹ فارورڈ اور اسٹاپ کر کے فارورڈ کے آپشن تو تھے لیکن جب جہاں موقع ملتا اس بات سے بے نیاز کہ فلم کا موضوع کیا ہے سب مل جل کے سب کچھ دیکھ لیا کرتے تھے .شادیوں کے رت جگوں میں اور کئی گھروں میں رمضانوں میں سب جمع ہوتے تو سحری تک جاگنے کے لئے بھی یہ اہتمام کیا جاتا ،اب سوچیں تو لبوں سے خود بخود لاحول کا ورد نکلتا ہے توبہ🙈 .
تھوڑے بڑے ہوے تو فلمیں محدود ہو گیئں اور خود بھی کچھ اچھے برے کا فرق کرنا آیا .باقی بھلا ہو گھر سے کالج کے لمبے راستے کا کہ اگرچہ گھر میں ڈش اور کیبل نہ ہونے کی وجہ سے بہت اپ ڈیٹ نہیں بھی ملتی تھی لیکن روزانہ کا وین کا لمبا سفر سارے گانے ازبر کروا دیتا تھا یوں بھی بچپن اور لڑکپن میں یاداشت کمال کی ہوتی ہے اور دماغ کے کور ے اسفنچ میں جذب کرنے کی زیادہ صلاحیت کے ساتھ ساتھ “خالی” جگہ بھی خوب ہوتی ہے،وہ سارے گانے شادیوں اور مہندیوں کے مقابلے میں خوب حلق پھاڑ پھاڑ کے گاے جاتے جہاں ہار جیت عزت کا معملا ہوتا(کتنے معصوم تھے ہم ) ،وہ سب گانے آج بھی پکے پکے یاد ہیں کبھی کہیں سننے کا موقع ملے اور ساتھ گنگنانے لگو تو بچے حیرت سے دیکھتے ہیں.
پڑھنا لکھنا ،ملنا ملانا ،ذمہ داری اور سنجیدگی وقت کے ساتھ ساتھ تھوڑی سمجھ بوجھ بھی لے آتی ہے .ہمارے بڑے صرف وی سی آر اور انڈین فلموں کے چلینج سے نبرد آزما تھے اسکا بھی سادہ سا حل موجود تھا کہ وی سی آر نہ لو اور گھر میں ڈش نہ لگوائی جائے ،کبیل کافی بعد میں آیا . والدین گھر میں اکیلے چھوڑ کے جاتے بھی تھے تو انکو یہ فکر نہیں ہوتی تھی کہ بچوں کی آنکھوں سے کچھ برا نہ گزر جائے . ٹی وی بھی اسقدر معصوم تھا کہ سوچو تو پیار آتا ہے ، اگر خدانخواستہ کسی چینل سے نشر ہوتی فلم میں کچھ ایسا ویسا آ بھی جائے تو اسکی جگہ پھول ،پتے ،درخت اور خوبصورت جھیلیں اور پہاڑ لے لیا کرتے تھے اور ہم بچے تو ہمیشہ یہی سمجھے کہ یہ گانے اسی طرح فلماے گئے ہیں. ڈراموں میں ادب ،تمیز اور قدریں تھیں .تخلیق کار کمال کے تھے اور اس بات کا لحاظ تھا کہ معاشرے کی مطابقت سے کیا دکھایا جانا چاہیے اور کیا نہیں ،نہ ریٹنگ کے چکّر تھے نہ مقابلے بازی اسلیے سب مل کے آرام سے ڈرامہ دیکھ لیا کرتے تھے اور جو چیزیں اسوقت تخلیق ہوئیں وہ جس دور میں بھی دیکھی جایں کمال ہیں . سنسر شپ بہت زیادہ تھی .پی ٹی وی پہ “فل ہاؤس ” بہت اچھا لگتا تھا ،وہی “فل ہاؤس “ایک عرصے بعد نیٹ فلیکس پہ دیکھا تو یقین نہیں آیا کہ یہ وہی معصوم سا شو ہے . ہمارے دور میں ٹیکنولوجی کی بدولت ایسے چیلنجوں کی بھر مار ہے ،پابندی نا ممکن ہے کیونکے بچے نے اسی دنیا میں رہنا ہے ، باہر نکلنا ہے اور دنیا میں ہونے والی ہر اپ ڈیٹ او ہر مشہور پروگرام کو آپ کی پابندی کے باوجود جان لینا ہے .اب ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین بھی ہر چیز سے باخبر رہیں اور دل چاہے نہ چاہے ساتھ باہم دلچسپی کی چیزیں ڈھونڈ کے دیکھی جایں .اسی ڈھونڈھ ڈھانڈ میں ترکش سیریز “ارطغرل ” ٹکرا گئی .گرمیوں کی چھٹیاں آنے والی تھیں اور سب کاموں سے فارغ ہونے کے بعد پھر یہ مشکل آنی تھی کے اب کیا دیکھیں ،مختلف عمر اور شوق کے بچوں کے ساتھ کسی ایک چیز پہ متفق ہونا ناممکن ہو جاتا ہے پھر اگر سب اپنی اپنی اسکیرنیں لے کے بیٹھیں تو ہمارے اندر کے چوکیدار کو اختلاجی کیفیت ہونے لگتی ہے سو ہم نے سیزن اور قسطوں کی تعداد دیکھتے ہوے یہ سیریز گرمیوں کی چھٹیوں کے لئے سمبھال کے رکھ لی جو کہ مقبول رہی اور سردیوں تک چلی .
ارطغرل دراصل ان ترک جانباز لیڈر کے بارے میں ہے جن سے خلافت عثمانیہ کا آغاز ہوا .سچ کہوں تو سلطنت عثمانیہ کے بارے میں بہت سنا تھا لیکن کبھی تفصیل سے پڑھنے یا جانے کا اتفاق نہیں ہوا .یوں بھی ہمارے ہاں اپنی تاریخ جاننے اور سمجھنے کا اتنا رجحان نہیں ،نہ اس پہ زیادہ بات کی جاتی ہے ،نہ لوگوں کو پتا ہوتا ہے ،نہ اس بارے میں کوئی نیا ادب یا دلچسپ کتابیں موجود ہیں کہ بچوں کو شوق دلایا جائے .ہماری محفلیں اور گفتگو بھی بس سطحی سی ملکی سیاستوں ،اسکے حمایتیوں اور گھریلو قسم کے مذہبی فتووں کے اطراف گھومتی ہیں ایسے میں کون جانے اور کون بتاے قصّہ مختصر .ارتغرل دراصل عثمان کے والد کی داستان ہے ،یہ اس قدیم دور کی کہانی ہے جب ترک قبیلوں کی صورت خیموں میں رہتے تھے ،شکار کرتے تھے ،تیر اندازی اور تلوار زنی میں مہارت کے ساتھ ساتھ عیسایوں ،منگولوں اور غداروں کی چالبازیوں اور سیاستوں کے درمیان اپنی جگہ بنانے میں مشغول تھے ،یہیں سے سلطنت عثمانیہ کی فتوحات کا آغاز ہوا .ترک خواتین دیگر کاموں کے ساتھ ساتھ قالین بنا اور رنگا کرتی تھیں.پوری کہانی بہت خوبصورت اور ا علیٰ انداز سے فلمائ گئی ہے .اس سیریز کی بنیاد اس تاریخ پہ مبنی ہ جو مورخوں کی رقم کی ہوئی دستاویزات سے ملی لیکن بہت سی چیزوں کا کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کے لئے اضافہ بھی کیا گیا ہے .یہ اپنی مذہبی اور ثقافتی قدروں سے بھری ماضی کی وہ بھولی ہوئی داستان ہے جو اگر اس سیریز کی صورت میں پیش نہ کی جاتی تو شاید ان کہی ہی رہتی اور بلخصوص آج کی نسل اس بارے میں کبھی نہ جان پاتی .
آجکل جو چیز بھی نظر سے سے گزرے بچے سب سے پہلے جا کے اسکا سارا حدود اربع گوگل کر لیتے ہیں ،سارا آگا پیچھا پڑھ کے خود بھی کھوجتے ہیں اور ہماری معلومات میں بھی اضافہ کرتے ہیں . ارطغرل دیکھنے کا فایدہ یہ ہوا کے بچوں نے تاریخ کھنگال ڈالی کونسے واقعات کب وقوع پذیر ہوے ،کس کا کردار اصل سے مطابقت رکھتا ہے ،کونسی کہانی اضافی ہے ،کون کتنا جیا اور کس کی وفات کیسے ہوئی،منگول کون تھے اور ٹیمپلرس کا کیا کردار تھا . یہ نہ دیکھتے تو ان سوالات کے جوابات بھی نہ کھوجے جاتے .
فاطمہ نے ایک آنٹی سے تذکرہ کیا اور ہماری معلومات میں اضافہ کیا کہ “ارتغرل اصل میں حلال گیم آف تھرون ہے😄 ” .سب سے بڑ ا چیلنج تھا کہ یحییٰ کو لڑائیاں دیکھنے سے کیسے بچایا جائے کیونکے بہرحال وائلینکس کسی قسم کا بھی ہو چھوٹے بچوں کے لئے نامناسب ہے .یہ احتیاط بڑے بچوں کے ساتھ با آسانی برتی جا سکتی ہے لیکن جب باقی سب بڑے ہوں اور ایک چھوٹا سا ہو تو وہ وقت سے پہلے بہت کچھ سیکھ لیتا ہے اور اسکو بچانا کافی مشکل ہوجاتا ہے .لڑائیاں ساری فارورڈ کر دی گیئں جسکا نتیجہ یحییٰ صاحب نے یہ نکالا اور اپنے دوست کو بتایا کہ “میری اماں کو فائٹنگ سے ڈر لگتا ہے اس لئے وہ فائٹنگ آگے بڑھا دیتی ہیں ” (کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلایں کیا) . یہاں یہ بات دلچسپ بھی ہے اور سمجھنے کے لئے ایک مثال بھی کہ ایک الگ زبان کی کہانی جو انگلش سب ٹائٹلز کے ساتھ دیکھی گئی اور جو یقینا اک تین سالہ بچے کی سمجھ سے بلا تر ہوگی اسکے باوجود ایک چھوٹے سے دماغ کے اسفنج نے اس سے کیا کیا کچھ جذب کیا کہ کہانی ،کردار ،روایات اور ثقافت سب سے اپنی سمجھ سے مطابق معلومات کشید کر ل سو جو کچھ اپنی یا کسی بھی مانوس زبان میں اطراف میں وقوع پذیر ہوتا ہوگا وہ ننھے دماغوں پہ کیا کیا نقش نہ چھوڑتا ہوگا(یحییٰ کی ارطغرل ویڈیو دیکھنے کے لئے یہ پوسٹ چیک کریں ).
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=3898290166863294&id=431611513531194
اس سلسلے میں کسی بھی انگلش کونٹینٹ کو جانچنے کے لئے کے آیا یہ کس عمر کے بچوں کے لئے موضوع ہے
www.commensensemedia.orgکی ویب سائٹ بہت کارآمد ہے .اسکے علاوہ اس سلسلے میں ہمیں اس بارے میں اپنی ذمہ داری محسوس کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جو کچھ ان کورے دماغوں کے اسفنجوں میں جذب ہو جب وقت پڑنے پہ نچڑ کے سامنے آے تو شرمندگی نہیں بلک خوشی اور طمانیت کا با عث ہو .