کسی بھی ملک ہجرت کرنے والوں کو نئی جگہ کو اپنانے کی پریشانی کے ساتھ ساتھ بے جا فرصت اور خالی پن بھی مایوس کر دیتا ہے۔اُس وقت بچوں کی مصروفیت تو تھی نہیں۔ڈرائیونگ ٹیسٹ کا پہلا مرحلہ پورا کرنے کہ بعد روڈ ٹیسٹ کے لیے آٹھ مہینے کا وقفہ ہوتا ہے ،نئی جگہ پہ نئے موسم اور اجنبی راستے بھی اُلجھا دیتے ہیں۔
اگرچہ شروع میں حال کچھ ایسا ہوتا ہے کہ جو کوئی اپنی زبان بولتا نظر آئے دل چاہتا ہے اسے اپنا بنا لیا جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپنے جیسے لوگ تلاش کرنے اور اپنا حلقہ احباب بنانے میں ایک عرصہ لگ جاتا ہے ،پھر
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا!
کچھ لوگ آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں تو کچھ لوگ کترا کے نکل جانا چاہتے ہیں اور کہیں کہیں آپ پہلے سے بنے گروپس میں خود کو مس فٹ محسوس کرتے ہیں الغرض ایک عمر لگتی ہے اس دشت کی سیاحی میں۔
یونیورسٹی کے دونوں میں ہمارا ایک قدم یونیورسٹی میں ہوتا تھا تو دوسرا ورلڈ میمن فاؤنڈیشن میں شاید ہی کوئی قابل ذکر کورس ہو جو چھوڑا ہو ،ہر چیزسیکھنے کا جنون بہت خوار کرواتا تھا لیکن یہاں آکے اُن مشغلوں میں گم ہونا بھی اپنے ملک کے مقابلے میں بہت مہنگا لگتا,جو رنگوں کے ڈبے ہمارے ہاں دو سو روپے میں مل جاتے تھے اُسکا فقط ایک رنگ یہاں آٹھ ڈالر کا نظر آتا تو خریدنے کی ہمت نہیں ہوتی اور اپنی سستی مارکیٹوں کی بہت یاد آتی جو ایسی خریداریوں سے چاہتے ہوئے بھی روک دیتی۔
بہت زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کو چھوٹی موٹی نوکریاں کرتے دیکھ کر دل دکھتا اور پردیس کی سرد ہوائیں مزید تنہا اور اداس کر دیتیں ۔
امیگرنٹ یا ہجرت کرنے والے سب لوگ کم و بیش ایک سے حالات سے گزرتے ہیں اور ایک سے تجربات اور رویئے محسوس کرتے ہیں جو کے ایک فطری عمل ہے۔مسئلہ ہمارے رویوں میں نہیں ہوتا مسئلہ دراصل اس سوچ کا ہوتا ہے جو اسی ماحول کی پروردہ ہوتی ہے جس میں ہم پروان چڑھے ہوتے ہیں اور یہ ذہنیت ہمارے مذہب اور اخلاق کی نہیں بلکہ معاشرے کے اپنے بنائے ہوئے معیار اور لوگوں کے طے کیے ہوئے ریت اور روایتوں کی دین ہے۔بد قسمتی سے مشرق میں طبقے اور کلاس کے مسائل مغرب کی نسبت زیادہ ہیں اور یہ وہ دنیاوی پیمانہ ہے جو ہمارے معاشرے میں لوگوں کا مقام، عزت اور مرتبہ طے کرتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی کچھ اخلاقی قدریں اگر دل سے لگا کے رکھنے کی ہیں تو کچھ رویوں کو جڑ سے اکھاڑ کے پھینکنےکی اشد ضرورت ہے۔
(باقی آئندہ)
*
تصویر: دو نئے پنچھی ( لیک لوئس البرٹا 2004)
تحریر :قرۃ العین صبا
او کینیڈا ،ہم سب کی کہانی! (تیسرا حصہ)
(Visited 1 times, 1 visits today)