ٹین ایج عجیب و غریب ہوتی ہے ،جسم اور دماغ دونوں ہی بڑھ رہے ہوتے ہیں لیکن دماغ بضد ہوتا ہے کہ مجھے سب کچھ آتا ہے اور ایسے میں اگر کوئی اس بات کی نفی کرے تو دل کو بہت ٹھیس پہنچتی ہے،غلطی تسلیم کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے ،جھوٹ کیوں کہیں ہم سب بھی اس عمر میں ایسے ہی تھے لیکن اب جب بحثیت والدین اپنے بچوں کی اس کیفیت سے گزرنا پڑتا ہے تو امتحان معلوم ہوتا ہے .انکا دوست بھی بننا ہے،بات بھی ماننی ہے اور انکو عقل مند بھی تسلیم کرنا ہے (سب سے مشکل کام🤦 ).کل جمعہ تھا عموما جس دن اسکول کی چھٹی ہو اس دن خضر صاحب اپنے ابّا کے ساتھ جمعے کی نماز کے لئے جاتے ہیں ،آفس کیونکے قریب ہے اسلیے ظہر کے وقت پہ انھیں لے لیا جاتا ہے اسکے بعد وہ آفس میں ہی ایک گھنٹہ انتظار کرتے ہیں پھر دونوں گھر آجاتے ہیں .کبھی ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو پھر یہ ڈیوٹی میرے حصّے میں آتی ہے ،کل بھی ایسا ہی ہوا لیکن یحییٰ نے صبح سے وہ تنگ کیا کہ باتھ روم لے جانے اور ناشتہ کرنے میں ہی دو تین گھنٹے لگ گئے ،اسکے بعد گاڑی لوڈ ہوکے نماز کے لئے نکلی .خضر راستوں میں ماہر ہے اور اس بات کا انہیں تھوڑا زعم بھی ہے ، راستے میری کمزوری اسلئے G P S سے میری پکّی دوستی ہے .جب ہم ساتھ ہوں تو انکا اصرار ہوتا ہے کے جی پی ایس کے بجاے ان کی ہدایات لی جایں اور اس سلسلے میں کبھی کبھی گڑ بڑ بھی ہوجاتی ہے لیکن آخر میں قصور میرا ہی نکلتا ہے😉.
مسجد کا راستہ یوں تو ازبر ہے لیکن کچھ بچے کی وجہ سے الجھا ہوا دماغ اور کچھ جلدی جلدی میں خضر نے اشارہ کیا اور ہم بائیں کے بجاے سیدھا جانے والی لین میں آ گئے ،سیدھا کیوں مسجد کی پارکنگ تو لیفٹ پہ ہے ؟نہیں وہ فل ہو گئی وہ گاڑیوں کو آگے بھیج رہے ہیں ،بات دل کو تو نہیں لگی کیونکے مسجد کی پارکنگ کافی بڑی ہے اور اسکے برابر میں بھی کافی جگہ ہے لیکن کیونکے برابر کی لین اب فل ہو چکی تھی اسلئے سیدھا آنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا.سیدھے آ ے تو مسجد کے آگے کی طرف کی پارکنگ حسب توقع فل تھی گھوم کے دوسرے دفتروں کے سامنے آ ے تو بولے دیکھیں یہاں ہے پارکنگ ابّا بھی یہیں پارک کرتے ہیں ،میں نے بادل نخواستہ گاڑی پارک تو کر دی لیکن بات سمجھ میں نہیں آئ ,ہم تراویح کے دوران تو یہاں پارک کر دیتے تھے لیکن دن میں یہ پہلا موقع تھا،ٹائم نکل رہا تھا اسلئے جلدی جلدی قدم اٹھاتے ہوے مسجد کی طرف بڑھے میری الجھن غالبا صاحب زادے بھانپ چکے تھے اور خود بھی اپنے مشورے کے بارے میں کچھ شبہے کا شکار تھے ،فرمایا ،اگر آپکو ٹھیک نہیں لگ رہا تو ایسا کریں کے آپ مسجد کے برابر پارک کر کے آجاییں ،غصّہ تو بہت آیا لیکن بہت کچھ کہنے کے بجاے تھوڑے پہ اکتفا کیا نماز بس شروع ہونے ہی والی تھی ،جیسے تیسے نماز پڑھی اور خود کو تیار کیا کہ اب ٹکٹ لگتا ہے تو لگ جائے کیا کر سکتے ہیں اندر سے آواز آئی “اور وہ جو لکھا ہوتا ہے
توبہ ایک جھرجھری آئی.واپس نکلے تو صاحبزادے بریانی لئے تیار کھڑے تھے . ہر جمعہ کو نماز کے بعد مسجد کی انتظامیہ فنڈریزنگ کے لئے بریانی کے باکس سیل کرتی ہے ،یہ بریانی سب کی پسندیدہ ہے .جلدی جلدی قدم اٹھاتے ہوے گاڑی کی طرف چلے ،قریب پہنچنے پہ خضر نے دوسری طرف اشارہ کرتے ہوے کہا اماں ہمیں ادھر پارک کرنی چاہیے تھی وہاں پارکنگ ریزرو نہیں ہے .بہت کچھ زباں پہ آتے آتے رک گیا ،کمال ضبط سے کہا دیکھو ٹکٹ تو نہیں لگا ؟،نہیں ہم تو ویسے بھی بس بیس پچیس منٹ میں آگئے . میں نے یحییٰ کو سیٹ میں فکس کرتے ہوے تحمل کا مظاہرہ کیا اور سبق دینے کی کوشش کی ،”بیٹا جب تک کوئی چیز واقعی پتا نہیں ہو کسی کو گائیڈ نہیں کرتے ،وہ مس گائیڈنس ہوجاتی ہے ،اب اس چکّر میں میری نماز بھی صحیح طرح نہیں ہوئی ،جواب آیا ،تو میری کونسی صحیح طرح ہوئی ،میں سوچ رہا تھا کچھ ہو گیا تو اماں تو بھائی پتا نہیں میرا کیا کرینگی” ،اور ہم دونوں زور سے ہنس پڑے.