جب کوئی ان باکس میں آ کر بڑے پیار سے صبا آپا یا صبا آپی کہہ کر اپنے چھوٹے موٹے مشورے کرتا ہے تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے اسلیے بھی کہ میں اپنے میکے اور سسرال میں سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے کسی کی بھی آپا يا آپی نہیں دوسرا اس طرح سے سوچنا اور مخاطب کرنا مجھے پندرہ سولہ سال پیچھے لے جاتا ہے جب میں خود ایک تازہ تازہ پڑھائی کے جھنجھٹ سے نکلی آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا کے مصداق بوکھلائی بوکھلائ شادی ، نئے رشتے سمجھنے اور نبھانے کی الجھنوں میں مبتلا اور پردیس کی تنہائی، نئے ماحول اور لوگوں سے نبرد آزما عجیب و غریب کیفیات کا شکار نا تجربہ کار بیوی، دیورانی،بھاوج، چچی، ممانی اور پھر ماں تھی اور پردیس کی تنہائی میں اپنے چھو ٹے چھوٹے مسائل کے لیے کوئی ایوینو ڈھونڈتی تھی ۔
مہمانداری سے کیسے نبرآزما ہوں، سسرال کو کیسے خوش رکھیں ,ایسا کیا کیا جاۓ کہ بریانی کے چاول خراب نہ ہوں ،گوشت اور چاول کا حساب کیا رکھوں ۔کس قسم کی دعوت میں کیسا مینو ہونا چاہیے۔ بچوں کی ضدوں سے کیسے نمٹا جائے, انکا روٹین کیسے بنائیں، باتھ روم کے لیے کیسے ٹرینینگ کریں, کھانے کی عادت کیسے ڈالیں, لنچ میں کیا دیں وغیرہ وغیرہ۔۔
فیسبک یو ٹیوب اور سوشل میڈیا جیسی کوئی چیز بھی نہیں تھی اور ہمارے معاشرے اور لوگوں کا بھی ایک عجیب سا مزاج ہے کہ بات سمجھائی یا بتائی نہیں جاتی بلکہ یا تو سنائی جاتی ہے یا نشتر کی طرح چبھو دی جاتی ہے سو مشورہ یا نصیحت صحیح ہونے کے باوجود وہیں اپنا اثر کھو دیتی ہے کیونکہ انسان کی فطرت ہے کہ بات بھی اسی کی سننا پسند کرتا ہے جس کے لیے دل میں محبت یا نرم گوشہ رکھتا ہو سو ایسا تعلق کم ہی بن پا تا ہے ۔دوسرا یہ کہ ہر جہاں دیدہ یا تجربہ کار آدمی اگرچہ ایسے ہی کٹھن راستے سے گزر کے آیا ہوتا ہے لیکن اکثر نئے آنے والوں کے سامنے تھوڑا سا اکڑ جاتا ہے کہ چلو اب رگڑے کی باری تمہاری ،ہم اب مزے لیں گے،اپنی غلطیوں سے آپ سیکھو ،ہم کیوں بتائیں ہاں البتہ ایسے جملے کافی سننے کو ملتے ہیں کہ “ہم نے بھی یہ سب سنبھالا ہے” یا “یہ کون سا انوکھا کام کرنے چلی ہیں” وغیرہ وغیرہ۔
اگر ایسے موقعوں پر اپنی مثال دینے کے بجائے رسان سے اپنا تجربہ بیان کر دیا جائے تو گفتگو کافی با معنی ہو سکتی ہے ۔
ہم میں سے کوئی بھی کسی کام میں ماہر نہیں ہو تا ،لیکن ایک چیز ایسی ہے جو ہر ایک کے پاس ہوتی ہے جس سے وہ دوسرے کی مدد کر سکتا ہے اور وہ ہے “ہمارا تجربہ”۔بات یہ بھی ہے کہ اکثر لوگ بات سننا یا مفت مشورہ لینا بھی نہیں چاہتے لیکن اکثر اسکے پیچھے وجہ وہی ہوتی ہے کہ طنز، طعنے، اور نشتر تعلق پنپنے ہی نہیں دیتے کہ آپ کو معتبر جان کے بات سنی جاے دوسرا اگر اگلا آدمی آپ کے جیسے حالاتِ سے نہ گزرا ہو اور پھر بھی زبردستی کے مشورے آپ پہ مسلط کرے تو یہ بھی بیوقوفی ہے۔
چھوٹے چھوٹے تجربے دوسروں کے ساتھ بانٹنا اور ان سے حاصل ہونے والے نتائج کسی کی آسانی کے لیے بیان کرنا دوسروں کو زندگیوں میں بہت سا سکون بھر سکتا ہے اسلیے رشتہ کوئی بھی ہو نئے آنے والوں کو تھوڑی سی اسپیس دیں، اُنکے ساتھ پہلے مثبت تعلق بنانے کی کوشش کریں تاکہ پھر اپنی بات سمجھا سکیں۔ اپنا تلخ تجربہ دوسروں کے لیے آزاری کا موجب بنانے کے بجائے اس کو مثبت انداز سے شئر کر کے دوسرے کو راہ دکھائیں۔
“ولیتلطف” (اور نرمی سے بات کرنا)
محبوب آپ کے قدموں میں ہوگا
*
Khayal by Saba