بچوں کا ادب اور کتابوں کا شوق سفر(آخری حصّہ)

یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ویڈیوز کی شکل میں کہانی دیکھنے کے بجاے اسے پڑھنا یا سننا آپکی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارتا ہے مثلا الہ دین کی کہانی ایک ہی ہے لیکن جب وہ پڑھی یا سنی جاےگی تو ہر دماغ اپنی سوچ ،مزاج ،پسند اور صلاحیت کے مطابق الہ دین ،جن، چراغ ،شہزادی ،بادشاہ کے کردار اور ماحول تخلیق کریگا لیکن جب وہی کہانی فلم کی شکل میں پیش کر دی جاےگی تو سب دیکھنے والے اسے فقط ایک آدمی یعنی ڈائریکٹر کی نظر سے دیکھیں گے یہی وجہ ہے کہ جب کسی ناول کی ڈرامائی تشکیل کی جاتی ہے یا کسی کہانی پہ فلم بنائی جاتی ہے تو جو اس کتاب کو پڑھ چکے ہوتے ہیں وہ کبھی کبھی خوش لیکن اکثر مایوس ہوتے ہیں کیونکے انکے تصوراتی کردار فلم یا ڈرامے سے مماثلت نہیں رکھتے.
کتاب پڑھنے کی صورت ذہن کو جو کام مل رہا ہوتا ہے ویڈیوز دیکھنے سے وہ آدھا ہو جاتا ہے کیونکے دماغ کو جب ایک بنی بنائی چیز مل رہی ہوتی ہے تو وہ سست ہو کے تخلیق کی ضرورت محسوس نہیں کرتا.
اسکی ایک فی زمانہ مثال بچوں کا کسی مشینی روبوٹ کی طرح مستقل ٹیبلٹ یا آئ پیڈ کا استعمال ہے جسکی وجہ سے دماغ کی سست روی ،اسپیچ ڈیلے اور ADHD قسم کی بیماریاں عام ہوتی جا رہی ہے . دوسرے لفظوں میں آپ ایک پکی پکائی روٹی کھا رہے ہوتے ہیں تو آپکو آٹا گوندھنے ،اسکی سختی نرمی جانچنے،اسکو شکل دینے اور پھر پکا کے سینکنے کی ضرورت محسوس ہی نہیں ہوتی اور آپ بہت سے کام سیکھنے سے محروم رہ جاتے ہیں اسلئے ہماری کوشش ہوتی ہے کہ خاص کر جب کہیں باہر نکلیں تو بجاے اسکرینیوں پہ روبوٹ کی طرح آنکھیں لگانے کے بجاے کوئی کہانی،نغمہ یا پوڈ کاسٹ گاڑی میں لگا دیا جائے تاکہ سب اپنے اپنے رنگوں سے اپنے ذہن کے کینوس پہ اپنی تصویریں تخلیق کر سکیں .
پچھلے سال امی کینڈا آییں تو ہم نے بڑے شوق سے بچوں کے کچھ رسالے اور کتابیں منگوایں کہ انھیں کہانیاں پڑھ کے سنایں گے .غالبا کوئی نیا رسالہ تھا. کہانی سنانا شروع کی تو کچھ دیر بعد میاں صاحب کہنے لگے یہ کیا پڑھ رہی ہو؟بچے بھی عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے اور خود بھی احساس ہوا کے یہ ہم بچوں کو کیا سنا رہے ہیں .کہانی کچھ یوں تھی کہ تین چار بہن بھائی شادی میں شرکت کرنے اپنے رشتےداروں کے ہاں دوسرے شہر جاتے ہیں ،جو کے بہت کنجوس ہیں .وہ بچوں کی کہانی کم اور کسی تھرڈ کلاس چینل کا پھکڑ قسم کا سٹ کام زیادہ لگ رہا تھا.اس رسالے کو رکھ کے کہانیوں کی کتاب اٹھائی ،بادشاہوں اور پریوں کی کہانیوں کے بعد ایک کہانی کچھ سمجھ میں آئ وہ سنانی شروع کی .یہ کہانی ایک دیہاتی کے متعلق تھی جسکی بیٹی کی شادی کا وقت آتا ہے تو وہ جہیز خریدنے شہر جاتا ہے جہاں لوگ اسے طرح طرح لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں ، پھر جھلاہٹ ہونے لگی ،بیٹی نے سوال کیا “جہیز کیا ہوتا ہے ” ہم سوچ میں پڑ گئے ایک طرف جہیز کے خلاف مہمیں چلائی جا رہی ہیں اور دنیا خواتین کی ترقی کی باتیں کر رہی ہے اور ہماری کہانیاں جہیز اور شادیوں تک محدود ہیں .اندازہ یہ ہوا کے پورے معاشرے کو پھپو کے لطیفوں اور اسٹار پلس کے ڈراموں کی رشتےداروں کی سیاست والی ذہنیت نے لپیٹ میں لے لیا ہے اور لکھنے والوں کا مطالعہ بھی سطحی سا ہے جسکے نتیجے میں بچوں کے لئے بھی ایسا ادب بے ادبی کے ساتھ تخلیق کیا جا رہا ہے.
ضرورت اس امر کی ہے کہ کھلی زہنیت رکھنے والے اور تربیت یافتہ لوگ بچوں کا ادب تخلیق کرنے میں اپنا حصّہ ڈالیں .اسکے بعد سے ہم نے وہ کتابیں رکھ کے اپنی کہانیاں گڑ کے بچوں کو سنانی شروع کر دیں. مُطالعے کے کلچر کو فروغ دینا صحت مند معاشرے کی تشکیل اور ترقی کے لئے بے حد ضروری ہے اور اس کو فروغ دینے کے لئے ضروری ہے کہ بچوں میں کتاب کی محبّت جگای جائے .انھیں وقت نکال کے انکی دلچسپی کے مطابق کہانیاں سنائی جایں .انکے سامنے کتاب پڑھی جائے تاکہ انھیں یہ کام اہم محسوس ہو،انکے ساتھ انکی پسند کی معیاری اردو اور انگلش کتابیں پڑھی جایں اور انکے بارے میں دلچسپی کے ساتھ تبصرہ کیا جائے .انکو رنگ برنگی کتابوں کی شاپنگ پہ لے جایا جائے یا لائبریری کی سہولت ہو تو اسے روٹین میں لایا جائے اور سب سے بڑھ کر کتاب کے لئے اپنی مصروف بھاگتی دوڑتی اسکرین کے نشے میں چور زندگیوں سے وقت نکالا جائے.

Happy Reading

پہلا حصہ پڑھنے کے لیے اس لنک پہ کلک کریں اور اپنی رائے دینا نہ بھولیں

(Visited 1 times, 1 visits today)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *