کچھ تحریریں لکھنے والے کے دل کے بہت قریب ہوتی ہیں ،یہ بھی اُن میں سے ایک ہے ۔
تحریر : قرۃ العین صبا
ہمارے بچپن میں ہم نے اپنے اطراف جن جن بڑوں کو دیکھا جو تقسیم کے وقت موجود تھے یا کسی طور اسکا حصّہ تھے انکو ہمیشہ اپنی آبائی جگہوں کی باتیں کرتے ہوے پایا .
نانی اماں ٹونک کا ذکر کیا کرتی تھیں اور وہاں کا ذکر کرتے وقت انکے چہرے پہ ایک خوشی کا سایا آ کے گزر جاتا تھا .پاکستان آکے بس تو گئے تھے لیکن اپنی جڑوں سے نہیں کٹ پاے تھے۔
ایک بار دروازے کی گھنٹی بجی کھولا تو ایک بوڑھی خاتون بہت جوش سے انکے پیار کا نام لے کے انکی بابت پوچھ رہی تھیں “بببو ہے ؟” ،ہم نے کبھی نانی کا وہ نام نہیں سنا تھا بعد میں کوئی بڑا دروازے پہ آیا تو پتا چلا کہ یہ انکے بارے میں پوچھ رہی ہیں .غالبا اپنے بیٹے کے ساتھ اپنی بچپن کی سہیلی کو ڈھونڈتی ہوئی آئ تھیں۔ بچپن کے دوستوں اور پیار کے ناموں سے بھی کتنی یادیں جڑی ہوتی ہیں.ان سے والہانہ انداز سے لپٹ گیئں, ہم بچے حیران پریشان کہ یہ کون ہیں دونوں نے خوب باتیں کیں .
ہمارے نانا کی ایک بہن تھیں جنہیں سب پھپپو جان کہتے تھے ،کچھ دن تو وہ ٹھیک رہتیں پھر کچھ بہکی بہکی باتیں کرنے لگتیں ،بڑوں سے انکے بارے میں یہی سنا کہ انکی ہجرت سے پہلے کی زندگی نوابوں جیسی شاہانہ تھی ،شاندار حویلی ،آن بان،ریل پیل ،اور ایسے وفادار نوکر جو بعد میں کبھی انکے کسی رشتےدار سے بھی ملے تو مودب ہو کر ملے.پھپا میاں شکار کے شوقین تھے اور شیر کا شکار بھی کر چکے تھے .سنا ہے سب بہت شوق سے ان سے شکار کے قصّے سنا کرتے تھے.پاکستان آے تو جھونپڑی بنا کے رہنا پڑا اور سخت تکلیف کا وقت گزرا آخر میں وہ فالج کا شکار ہو کے کئی سال بستر پہ رہے اور پھپو جان نے انکی تیمارداری کری .یوں عرش سے فرش کا سفر انکی دماغی حالت پہ اثر انداز ہوا .
ان ہی کے بیٹے اور ہمارے خالو، امی کےدوسرے پھپپا جنہیں ہم نانا کہتے تھے اور ایک چچا ہر چھٹی کے دن تاش کی محفل سجایا کرتے تھے ،جب بھی بیٹھتے “چھبڑے” کا ذکر آ نکلتا ،”چھبڑا” بھی راجھستان کا ایک تاریخی شہر ہے جسکا نام چھ دروازوں کی نسبت سے چھبڑا پڑا .ہمیں تو نہ چھبڑے سے کوئی انسیت تھی نہ دلچسپی اور نہ ہم ان کیفیات سے واقف تھے جو انکے دل پہ گزرتی تھیں ،اسلئے جہاں وہ لوگ یہ بآتیں شروع کرتے سب چھوٹے زیر لب مسکرا مسکرا کے ایک دوسرے کو اشارے کرتے کہ لو بھئی پھر آ گیا چھبڑا اور ٹونک۔
انڈین فلم “لمحے” ہمارے ان خالو کی پسندیدہ تھی ،شاید اسلئے کہ اسکی منظر کشی چھبڑے سے کافی ملتی جھلتی تھی ،راجھستان کے صحرائی منظر اور ثقافت،ان سے سنی ہوئی آموں کے باغوں کی کہانیاں اور بارش کے موسم میں باغوں میں پڑے جھولوں کے قصے ہم نے بھی اسی فلم میں دیکھے.جب گانے میں سری دیوی لمبی لمبی پینگہیں لیتے ہوے لتا کی آواز میں گاتی ہے کہ “باغوں میں پڑ گئے ساون کے جھولے ” تو یہ جھولے کوئی فنٹسی نہ تھے بلکے واقعی وہاں یونہی ساون کی جھڑی میں خواتین کے لئے باغ میں لمبی لمبی باڑھوں کے بیچ ایسے ہی جھولے ڈلا کرتے تھے .
ہمارے ابّا بھوپال کے تھے ،وہ تقسیم کے دس بارہ سال بعد اکیلے پاکستان چلے آے تھے ،انکی پرانی سرمئی بوسیدہ ہوتی ڈائری میں بھوپال کی محبّت میں لکھی ہوئی مٹی مٹی نظم سے بھی یادوں کی خوشبو آتی تھی .
ہجرت کی وجہ کوئی بھی ہو ہجرت کرنے والے ملتی جھلتی کیفیات سے گزرتے ہیں.لوگ زمین چھوڑ جاتے ہیں ،زمین انھیں نہیں چھوڑتی . پہلی نسل چمن سینچتی ہے تو بعد والی کی زندگیاں جا کے سکون کا سانس لیتی ہیں۔ پہلی یادوں کا بوجھ ڈھوے ڈھوے پھرتی ہےتو اگلی نسلیں زمین کو اپنا کے چین کی نیند سوتی ہیں۔جو چھوڑ کے چلے جاتے ہیں وہ سب کچھ تصور میں وہیں منجمد کر جاتے ہیں حالانکے چند برسوں میں ہی ہر چیز بدل جاتی ہے۔
پرانی تصویریں ذہن سے یوں چپکتی ہیں کہ کینیڈا کے کسی عالیشان مال کے سنگ مر مر کے فرش پہ چلتے پھرتے اچانک ایسا لگتا ہے کہ ایک دم طارق روڈ کی کسی گلی میں آ کھڑے ہوے ہیں ،گاڑی برق رفتاری سے ٹورنٹو کی کسی سڑک پہ دوڑ رہی ہوتی ہے تو لگتا ہے اگلا موڑ کراچی کی کسی جانی پہچانی سڑک کا ہے .
زندگی کتنی ہی منظم اور نفیس ہو جائے بچپن جن گلیوں اور چھتوں میں گزرا ہو کہیں نہ کہیں کوئی راستہ کوئی منظر چھب دکھلا کر ایک دم گم ہو جاتا ہے.کبھی بند گھر کی چھت تاروں بھرے آسمان میں بدل جاتی ہے، آس پاس دیواریں ہٹ کے کھلے صحن کا روپ ڈھال لیتی ہیں اور کراچی کی شاموں والی رات کی رانی اور موگرے کی مہک سے لپٹی ٹھنڈی ہوا ہولے سے چل پڑتی ہے. کبھی بارش کے بعد لگتا ہے گیلی مٹی کی ویسی ہی خوشبو پھیل گئی جیسے لڑکپن میں نارنجی اسٹریٹ لائٹ کے تلے بارش کے بعد چمکتی بھیگی سڑکوں سے اٹھا کرتی تھی۔
ہماری محفلوں اور باتوں میں کہیں نہ کہیں پاکستان ضرور سنائی دیتا ہے اور پھر پتا چلتا ہے کہ نانی اماں ٹونک کا اور خالو چھبڑے کا ذکر کیوں کیا کرتے تھے اور ابّا نے بھوپال پہ نظم کیوں لکھی تھی ۔
ہمارے پرکھوں کی ہجرت قربانی کے لنے تھی اور ہم جیسوں کی ہجرت بہتری کے لئےہے.وہ لوگ عظیم تھے ،ہمارا مقصد محدود ہے.وہ لوگ گرچے معاشی بدحالی کا شکار تھے لیکن انکو مشرقی اقداراپنانے اور آگے بڑھانےکے لئے بہت زیادہ جدوجہد نہیں کرنی پڑی ، ہم مغربی اقدار سے نبرد آزما ہیں اور اپنی نسلوں کو ورثے میں اپنی زبان ،قدریں اور ثقافت ضرور دینا چاہتے ہیں.
کیوں ؟ کیونکے ہماری خاک کا خمیر وہیں سے اٹھایا گیا ہے جو ہماری پہچان ہے، ہمارا ملک ہمارے چہروں سے جھلکتا ہے، ہمارے مزاج میں ہے ، ہمارے رکھ رکھاؤ اور تہذیب میں ہے ،ہمارے کھانوں کے ذائقے میں ہے اور ہمارے آموں کی خوشبو میں ہے .
خدا پاکستان میں امن و سکون اور خوش حالی لاے ،آمین
میرے فوجی جواں جرّاتوں کے نشاں
میرے اہلِ قلم عظمتوں کی زباں
میرے محنت کشوں کے سنہرے بدن
چاند میری زمیں پھول میرا وطن!
جشن آزادی مبارک
قرة العین صبا
ہجرتوں کے مارے لوگ!
(Visited 1 times, 1 visits today)