یونیورسٹی کے موسم

یونیورسٹی کے موسم (سر سید یونیورسٹی کینیڈا کے المناے ڈنر میں پڑھا گیا مضمون )

گلابی سردیوں کی نئی نئی صبح تھی،تاریخ غالبا” 4 جنوری تھی،کراچی کا جاڑا یوں بھی اپنے اندر کئ فنٹیسیز لئے آتا ہے اور وہ تو پھر یونیورسٹی کا پہلا دن تھا،جوش و خروش سے بھرپور،یوں لگتا تھا کہ بس تقریبا انجینر بن ہی چکے ہیں اور آدھی دنیا تو سمجھو فتح ہو ہی گئی. یونی فارم دیکھ کے دل کچھ بجھا بجھا سا تھا یہ کیا یونیورسٹی میں بھی یونیفارم ؟ ان دنوں انتظامیہ کی طرف سے اسٹوڈنٹس کو ایک ہرے رنگ کا بستہ بھی ملا کرتا تھا ،مشکل یہ درپیش تھی کہ یونی فارم پہن کر بستہ پکڑے یونیورسٹی جانے کو ایک انجینر” ٹو بی” کا دل بلکل نہیں مانتا تھا لیکن اس بیگ کے ساتھ ایک لالچ بھی جڑا تھا کہ اس پہ سنہری حروف میں “سر سید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنولوجی” لکھا ہوا تھا،بستہ نہ لیتے تو لوگوں کو کیسے پتہ چلتا کہ ہم انجینئرنگ کے ہونہار طالب علم ہیں،یہ سوچ کے گردن تھوڑی اکڑی جاتی تھی،کچھ کچھ نا معقولیت کا احساس ہوا لیکن یونیورسٹی پہنچ کے پتہ چلا کہ نا معقولوں کی کوئی کمی نہیں،ہر طرف سبز بستوں کی بہاریں تھیں ۔

مارچ اپریل کی ہواوں نے ابھی بہار کو خوش آمدید کہا ہی تھاکہ مڈ ٹرم کی افداد سر پہ آ پڑی ابھی اس سے نہ سنبھلنے پائے تھے کہ اسائنمنٹ،وائیوا،پروجیکٹس اور فائنل سامنے آ کھڑے ہوئے اور ہماری مثل یوں ہوئی کہ بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق لیکن پتہ چلا کہ یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجئے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے!

گرمیوں کی تپتی دوپہروں میں اس آگ کے دریا میں غوطے مارمار کے اور لمبے لمبے دنوں میں “انڈکٹرز” اور “کیپئسٹرز” کی گتھیاں سلجھاتے ہوے یا کبھی “سی” اور “جاوا” کے پروگراموں میں سر کھپاتے ہوے کچھ سیکھا نہ سیکھا یہ ضرور سیکھ گئے کہ کہاں اسائنمنٹ جمع کراتے وقت صرف “ویرییبلز” بدل کر کام چل سکتا ہے اور کہاں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال کر نا بے حد ضروری ہے ،کہاں کاپی پیسٹ پکڑا نہیں جاےگا اور کہاں پیراگراف اور لفظوں کی ترتیب بدلنی پڑے گی آخر میں تو اسقدر مہارت آگئی کہ کہیں کہیں پاوڈر کاپی سے بھی استفادہ کیا،امتحان ہمیشہ مئی کی شدید گرمیوں میں آتے اور شام کو گھر واپسی پہ جب کوئل کوکتی تو لگتا ہماری حالت پر نوحہ پڑھ رہی ہو ۔
یونیورسٹی میں بارشوں کا اپنا ہی مزہ تھا،کسی کا دل کلاس میں نہ لگتا،ٹیچر بھی کبھی کبھی جلدی چھوڑ دیتے،اس کن من پھوار میں بھیگنے کا اپنا ہی سرور تھا اور ایسی بارشوں میں سموسے اور رولز کے ساتھ چاے پینے کا اپنا ہی ایک الگ رومان ۔

خزاں اپنے ساتھ فال سیمسٹر لاتی کراچی میں فال بس نئے سمسٹر سے ہی پتا چلا کرتی تھی ،موسم تھوڑا بہتر ہو جاتا اور ایک نئی منزل کا آغاز ہوتا اور سب دوبارہ نئے جوش کے ساتھ پڑھائیوں میں جت جاتے جو حسب معمول آہستہ آہستہ مانند پڑ جاتا ۔

وہاں تمام موسم شاید اب بھی ویسے ہی ہیں اور شاید یہاں بھی لیکن جب کینڈا کی یخ بستہ سردی دروازہ کھٹکھٹاتی ہے تو جانے کیوں آنکھوں میں وہ بے فکر گلابی صبحیں گھوم جاتی ہیں،بہار کی آمد پہ جب نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں تو مجھے یونیورسٹی کی انٹرنس پہ لگے بہت سارے پھول اور عمارت سے لپٹی سبز قد آدم بیلیں یاد آجاتی ہیں،بارشوں میں بھیگنے کا شوق تو کب کا ختم ہوا یہاں کی ٹھنڈی ٹھنڈی بارشیں بس دور سے اچھی لگتی ہیں بلکے کبھی کبھی گہری اداسی ساتھ لاتی ہیں اور جب پت جھڑ میں ہر طرف طرح طرح کے خوبصورت رنگ بکھرے ہوتے ہیں تو مجھے بہت سے دوسرے رنگ یاد آجاتے ہیں،بے فکر خوشی کے رنگ،کھنکتی ہنسی کے رنگ اور پر خلوص دوستی کے رنگ اور ساتھ ہی وہ شعر یاد آجاتا ہے جو سینئرز کی نئے آنیوالوں سے فرمائش کے دوران میں نے پہلے دن پڑھا تھا
آتی رہیں گی یاد ہمیشہ یہ صحبتیں
ڈھونڈا کریں گے ہم تجھے فصل بہار میں!

(Visited 1 times, 1 visits today)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *