شاید چھٹی کلاس کی بات ہے، ہماری کلاس میں ایک بہت لائق فائق اور اچھا بچہ تھا۔ بچوں اور ٹیچرز کے ساتھ بھی اُسکا رویہ بہت مہذب تھا اور کلاس میں جب بھی کوئی بات ہوتی اور اُسکی باری آتی تو اپنی رائے بڑے ٹھوس انداز میں دیتا ،کوئی سائنس کا موضوع ہو یا اسلامیات کا اُسکا انداز اور بات دونوں میں وزن ہوتا غالباً گھر میں کتابیں پڑھی جاتی ہونگی اور والدین کی بھی بھرپور توجہ میسر ہوگی جو بھی وجہ تھی ٹیچرز اور بچے سب اسکو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے لیکن ایک دن ایک عجیب سا واقعہ ہوا۔
کلاس میں کچھ شور تھا اور بچوں میں کوئی چھوٹا موٹا سا جھگڑا ہوا تو اُسکا نام بھی آ گیا۔ ہمارے سر نے اس سے چشمہ اُتارنے کو کہا اور پھر رکھ کے منہ پہ ایک ایک تھپڑ جڑ دیا۔ ہم سب ہی اپنے سر کے اس رویئے پہ ہکا بکا تھے کیونکہ ہم جانتے تھے کہ وہ بھی اُسے پسند کرتے ہیں۔ کلاس میں سکوت طاری تھا، اس تھپڑ کا جواز ٹیچر نے یہ دیا کہ کیونکہ تم بہت اچھے بچے ہو اسلیے تمہیں سخت سزا ملنی چاہیے تاکہ تم آئندہ ایسا نہ کرو ۔
اسوقت کلاس کے ایک اچھے بچے کے ساتھ یہ سلوک اچھا تو نہیں لگا لیکن شاید اسی میں کوئی حکمت ہو ہم سمجھ نہیں سکے۔
آج سوچوں تو ٹیچر کی یہ دلیل بے انتہا بودی لگتی ہے۔ اسکو اس ایک غلطی کا احساس بات کر کے بھی دلایا جا سکتا تھا بلکہ اس کے اچھے رویئے اور لیاقت کی بنا پہ رعایت بھی دی جا سکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔
یہ ایک بہت ہی عام معاشرتی رویہ ہے ۔ہم اچھے لوگوں سے ایسا ہی سلوک کرتے ہیں۔ زرا اپنے اطراف نظر ڈالیے۔ اچھا بھائی، اچھی بہن،اچھی اولاد، اچھی بہو، اچھی نند، اچھی بھاوج، اچھی جیٹھانی،اچھی دیورانی الغرض جتنے لوگ رشتوں کے اچھے خانوں میں فٹ بیٹھتے ہیں زندگی میں اکثر اُنکی ایسے ہی عزت افزائی کی جاتی ہے۔ اُنکی خوبیوں، اچھے رویوں، سلجھی باتوں، قربانیوں اور لیاقت کو ہم اپنا حق سمجھ کے وصول کرتے ہیں اور موقع ملتے ہی ایک ذرا سی کسی بات پہ کوئی گنجائش دیے بغیر اُن کے چہرے پہ ایسے ہی تضحیک بھرا تھپڑ دے مارتے ہیں۔
انکی نسبت بے مروت، منہ پھٹ ،بد لحاظ اور بدتمیز
لوگ فائدے میں رہتے ہیں۔ کیونکہ اُنکے بارے میں یہ تاثر بن چکا ہوتا ہے کہ یہ تو ہیں ہی ایسے تو اُن سے نہ کوئی توقعات وابستہ کی جاتی ہیں اور کرارا جواب ملنے کے ڈر سے نہ کوئی باز پرس کی جاتی ہے بلکہ اُنہیں ہر موقع پہ خاص اہمیت دی جاتی ہے کہ کہیں کوئی پنگا کوئی فساد کھڑا کر کے رنگ میں بھنگ نہ ڈال دیں۔دل سے اُنہیں پسند نہ بھی کیا جائے بظاہر ان کی موج ہی رہتی ہے۔
اور پھر ہم سوچتے ہیں کہ دنیا میں اچھے لوگ کم کیوں
ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم مہربان اور عاجز لوگوں کی قدر نہیں کرتے، انکو وہ عزت اور مقام نہیں دیتے جو دینا چاہیے تو آہستہ آہستہ وہ اچھا کرتے کرتے تھک جاتے ہیں اور پھر وہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ دوسرا برا کر کے بھی فائدے میں ہے تو وقت کے ساتھ اُنکی روش بھی بدل جاتی ہے۔
ایسے لوگوں کو اللہ توکسی نہ کسی صورت نواز ہی دیتا ہے ،کبھی اُنکے کام خود بہ خود بن جاتے ہیں اور کبھی انکی خوشیاں دائم ہو جاتی ہیں لیکن نیکی کا جواب نیکی سے نہ دینے والے بندوں کو خراج دینا ہی پڑتا ہے۔
اب بھی وقت ہے ، ابھی زندگی باقی ہے اور آپ سوچ سمجھ سکتے ہیں تو اپنے آس پاس کے رشتوں پہ نظر ڈالیں۔ آپکی ساس نرم مزاج ہیں تو اسکا فائدہ نہ اٹھائیں۔ آپ کی بہو خدمت گزار ہے تو اُسکی چغلیاں لگانے سے بچیں اور محبت سے پیش آئیں۔ آپکا بھائی آپ کے ساتھ اچھا کرتا رہا ہی تو اُسکے ساتھ خود غرضی نہ برتیں اُسے چونا نہ لگائیں۔ اولاد فرمابردار ہے تو اس کا بے جا فائدہ نہ اٹھائیں۔آپ کی بھاوج قربانی دیتی آ رہی ہے تو اسے اسکی عادت نہ سمجھیں، نند کے اخلاق کو اُسکی کمزوری نہ گردانیں، آپکی دیورانی آپکا لحاظ کرتی ہے تو اسے اُسکا فرض سمجھ کے جوتے کی نوک پہ نہ رکھیں۔
اچھے اور مہربان لوگوں کی قدر کریں اس سے پہلے کہ وہ برے لوگوں میں بدل جائیں اور آپ اپنا اور دوسروں کا نقصان کر بیٹھیں کہ ہماری دنیا کو مہربان لوگوں کی بہت ضرورت ہے۔
قرۃ العین صبا
اچھے لوگ
(Visited 1 times, 1 visits today)