محبت ایک بہت حسین اور پاکیزہ جذبہ ہے ۔ یہ آدمی کو خاص بنا دیتی ہے۔ عام سے عام چہروں کے گرد بھی اس جذبے کو پا کے جیسے روشنی ہالے کی صورت رقص کرنے لگتی ہے ۔ کسی کو پا لینے کا احساس اور کسی کی پسندیدگی کا اعتبار وہ اعتماد بخشتا ہے کہ آدمی دنیا سے لڑنے کو تیار ہو جاتا ہے۔لیکن یہی حسین جذبہ آپ کو بے انتہا حساس اور محتاط بھی بنا دیتا ہے.ایک زرا سے بے احتیاطی ایک غلط قدم ایک ہلکی کی سی غلط جنبشِ آپ کے سب سے زیادہ چاہنے والے کے لیے کوئی مشکل نہ کھڑی کر دے۔کہیں گندگی کی کوئی چھینٹ اسکے دامن پہ نہ آن پڑے کہ
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں!
کل جو ویڈیوز وائرل ہوئیں اور اُسکے بارے میں بہت ملے جلے بیانات آ رہے ہیں۔
تعلیمی درسگاہ ایک مقدس جگہ مانی جاتی ہے۔ہاں ساتھ پڑھنے والوں میں کبھی کبھی پسندیدگی یا محبت کا جذبہ پنپ جانا کوئی انہونی بات نہیں ہے اور اکثر اسکا انجام شادی پہ بھی ہوتا ہے لیکن بات یہ ہے کہ اسکو کس حد تک باوقار رکھا جائے یا رشتے کی شکل دے کے نبھایا جائے۔
اول تو یونیورسٹیوں کا مقصد گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کا حصول ہرگز نہیں ہوتا اور اسمیں بھی کچھ شک نہیں کہ اب بھی کئی گھرانے ایسے ہیں جہاں لڑکیوں کو انہی خدشات کے ڈر سے یونیورسٹی نہیں بھیجا جاتا۔میں نے اپنے اطراف بھی کچھ ایسی لڑکیاں دیکھی ہیں جو اسی خدشے کے تحت یونیورسٹی کی شکل نہیں دیکھ پائیں اور اُنکے لیے صنف مخالف اور یونیورسیٹی کا خیال بس اسی محدود سوچ سے جُڑ گیا کہ وہاں تو ہر دم بس ایسی اوٹ پٹانگ حرکتیں ہوتی رہتی ہیں حالانکہ ایسا قطعاً نہیں ہے بلکہ یونیورسٹی کا تجربہ تعلیم کے ساتھ ساتھ صنف مخالف کے بارے میں بہت کچھ سکھا دیتا ہے اور ذہن تھوڑا تدبر کرنے کے قابل ہوں تو اچھی طرح جان لیتے ہیں کہ ساتھ پڑھنے کا مطلب غلطی سے ٹکرا کے کتابوں کا گر جانا یا پھر اتفاقاً رجسٹر تبدیل ہو کے محبت کی کہانی شروع ہو جانا نہیں بلکہ زندگی کے مقاصد اس سے کہیں بڑھ کر ہیں۔
اُنہیں یونیورسٹی بدر کرنا چاہیے تھا یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے لیکن اگر لاہور یونیورسٹی والے اس واقعے کو نظر انداز کر دیتے تو ویڈیوز وائرل ہونے پہ یونیورسٹی پہ ایک لیبل لگ جاتا اور پھر یقیناً اُسکی شہرت کی سمت بدل جاتی۔
بات فقط اظہارِ محبت کی نہیں بلکہ پلان کے ساتھ تماشہ کھڑا کرنے کی ہے۔آپس میں بات ہو جاتی تو شاید کوئی پوچھتا بھی نہیں لیکن باقاعدہ مجمع لگا کے پھول پیش کرنے کی ایکسرسائز اور پھر خوشی خوشی سب کچھ ریکارڈ ہونے دینا دو فریقین کی محبت سے زیادہ فلمی سین بنانے اور دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کا مشن زیادہ لگ رہا ہے۔
مسئلہ کچھ یہ بھی ہے کہ انٹرنیٹ کی دنیا کی چکاچوند نے کچے ذہنوں اور آنکھوں کو خیرہ کر دیا ہے۔جب تک یہ سب فلموں میں نظر آتا تھا لوگ یہ سوچنے صبر کر لیتے تھے کہ یہ تو فلموں میں ہوتا ہے ،پھر کچھ سلیبریٹیز نے بھی اسکا مظاہرہ کیا پھر آہستہ آہستہ بات یوٹیوبرز اور انسٹاگرام انفلوئنسرز پہ آئی تو عام لوگوں کو یہ تاثر گیا کہ بھئی ایسے کام عام لوگ بھی اسی طرح کرتے ہیں اور اگر گھٹنوں پہ بیٹھ کے پھول پیش نہ کیے تو زندگی میں پھر کیا کیا؟ اب شوق کس طرح پورا ہو یا کوئی طریقہ تو نکالا جائے تو چلو یونیورسٹی ہی سہی۔
اب یہاں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا آپ اپنے گھر کے بیٹے یا بیٹی کے لیے اسے مناسب سمجھتے ہیں یا نہیں۔اگر ہاں تو پھر مسئلہ ہی نہیں کیونکہ آس پاس والے نو عمر ذہنوں کے لیے ایسی فلمی مظاہروں سے متاثر ہونا ایک عام سی بات ہے اور چمک دمک ہر ایک کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور بلآخر کہیں نہ کہیں ہم اپنے ماحول کا عکس بن جاتے ہیں تو یہ سب عام ہوتے ہوتے ہمارے گھروں تک بھی پہنچ جانا ہے اور اگر اپنے گھر کے لیے مناسب نہیں سمجھتے تو رشتوں کو خوبصورت اور پاکیزہ اور درسگاہوں کو حصولِ تعلیم کے لیے کوشاں اور سنجیدہ لوگوں کیلئے باوقار ہی رہنے دیں کہ محبت میں بھی سلیقہ اچھا لگتا ہے اسے بندر کا تماشہ نہیں بننا چاہیے۔
قرۃ العین صبا
University Proposal
(Visited 1 times, 1 visits today)