زیرہ ہے گھر میں۔۔گروسری کرتے ہوۓ ہم نے زیرے کے پیکٹ کی طرف ہاتھ بڑھایا تو وہ بول اٹھے
نہیں ہے مجھے نہیں ملا ، ہم نے جواب دیا
میں نے دیکھا ہے، وہ ڈٹے رہے!
اچھا؟ پکی بات ہے؟
ہاں!
چلئے ٹھیک ہے اب اس پہ بات ہوگی، ہم نے سوچا
کووڈ اور ورک فرام ہوم کے بعد سے ایسی بحثیں معمول کا حصہ ہیں۔
خواتین جہاں روٹین اتھل پتھل ہونے کی وجہ سے پہلے ہی پریشان ہیں اب اکثر گھروں میں جہاں مرد حضرات گھر کے امور میں مددگار ہوتے جا رہے ہیں کچھ ایسے مسائل بھی درپیش ہیں۔
ایک دوست ہیں انھونے بتایا کہ پتہ نہیں میرے میاں کے ساتھ کیا مسلہ ہے کہ جب کچن استعمال کرتے ہیں تو فرائ پین کا رخ ہمیشہ ایسے رکھتے ہیں کہ ہینڈل چولہے سے باہر کی طرف نکلے جو کہ کچن میں چلتے پھرتے ٹکرانے یا چھوٹے موٹے حادثے کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے لیکن یاد دہانی کے باوجود یہی حرکت دھرائی جا رہی ہوتی ہے اور تکرار رہتی ہے۔
اسی طرح ایک گھر میں لانڈری کا معاملہ درپیش ہے،یوں تو لانڈری کرنا یہاں بہت مشکل کام نہیں بس کپڑے ڈالنا اور نکال کے ڈرائر میں ڈالے جانے ہوتے ہیں اور مرد حضرات اسی کو مکمل لانڈری سمجھتے ہیں اور دھل جانے والے کپڑوں کا ایک ڈھیر اپنی اصل جگہوں تک پہنچنے کا منتظر ہوتا ہے جہاں سے گھر والے جمعہ بازار کے پٹھان بھائ کے کٹ پیس کے ڈھیر کی مانند اپنے اپنے کپڑوں کی چھانٹئ کرتے رہتے ہیں اور جب تک اگلی لانڈری کا وقت آ جاتا ہے، اور حضرت سینہ ٹھونک کے کہتے ہیں کہ وہ لانڈری کی صورت گھر میں خاتون کا مکمل ہاتھ بٹاتے ہیں اور ادھر خاتون پیچ و تاب کھا کے بیٹھ جاتی ہیں کہ “
اظہار بھی مشکل ہے چپ رہ بھی نہیں سکتے
مجبور ہیں اف اللہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے
ایک صاحب آفس میں لاکھ تکلف سے وضو کرتے ہوں گے اور کاونٹر کو بالکل خشک کر کے باہر نکلتے ہوں گے لیکن گھر سے کام کرتے ہیں تو گھر کے سب باتھ رومز میں وضو کرتے ہوۓ گویا پورا نہا لیتے ہیں، ادھر بیگم پوچھے لگا لگا کر پریشان، “بڑے بڑے میٹ ڈال لیجیے” ہم نے ہمدردی میں مشورہ دیا، جل کے بولیں، پورے فرش پہ کاونٹرز پہ بڑے بڑے تولئے ڈال دیے ہیں پھر بھی پانی بہانے کا کوئی نہ کوئی طریقہ نکال ہی لیتے ہیں۔
ایک کیس اور ہے جہاں گھر کے کاموں کو تو ہاتھ نہیں لگایا جاتا لیکن خاتونِ خانہ کا روٹین ہمہ وقت صاحب کے چاۓ کھانوں سے ٹکراتا رہتا ہے اور بیچاری سارا دن گھن چکر بنی رہتی ہیں۔
ایک اور بھی ہیں جنھیں مستقبل کی پلاننگ کرنا اور پھر اس پلاننگ اور حساب کتاب کو بیگم کے گوش گزار کرنا بے حد بھاتا ہے نتیجتاً ورک فرام ہوم کی سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ وقفوں کے بیچ بیگم کو اپنے کام چھوڑ چھاڑ کے شیخ چلی قسم کے سارے پروگراموں کی تفصیلات از سر نو ناصرف سننی پڑتی ہیں بلکہ باقاعدہ دلچسپی بھی لینی پڑتی ہے الغرض کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں۔۔
تو بات ہو رہی تھی زیرے کی، جس پہ ٹسل ہو گئی تھی ویسے معصوم سا زیرہ اب ایسی بھی کوئی بڑی چیز نہیں جو اضافی آجاۓ تو خزانہ خالی ہو جاۓ لیکن میاں بیوی کی ٹسل کا کیا ہے کسی بات پہ بھی ہو سکتی ہے۔
صاحب یوں تو گھر میں سب سے چھوٹے اور اپنی امی اور بڑوں کے بے تحاشہ مددگار ہونے کی بنا پر گھر کے کاموں میں کافی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں جس پہ “ورک فرام ہوم “نے چار چاند لگا دیے ہیں لیکن کبھی کبھی وہ چاند چڑھاتے ہیں جس کی چاندنی سے ہماری آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔
گھر آ کے تو دونوں کے ذہن سے ہی نکل گیا کہ فوری طور پر زیرہ چیک کرتے، اگلے دن دال میں تڑکا لگانے کھڑے ہوۓ تو پھر زیرہ یاد آیا۔
اب یہ اچھا موقع ملا ہے، ہم نے خود کو ایک موٹیوشنل ٹیڈ ٹالک کے لیے تیار کیا، ویسے بھی سارے سائیکلوجسٹ اور تھراپسٹ کہتے ہیں کہ موقع دیکھ کے رسان سے دلیل کے ساتھ بات کرنی چاہیے اور اب تو جو یہ موقع اور “زیرے” کی کیس اسٹڈی سامنے آ گئی تھی تو بس دلیل اور ثبوت دونوں موجود تھے۔
ہم نے دل ہی دل میں گراونڈ بنایا،
دیکھیے، بہت اچھی بات ہے کہ آپ گھر کے کاموں میں مددگار رہتے ہیں، یہ ایک بہت مفید عادت ہے، لیکن کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو خاتونِ خانہ پہ چھوڑ دینی چاہیں، ہم نے دل ہی دل میں بات آگے بڑھائ۔
اب دیکھیے نا! کچھ دن پہلے دعوت تھی، آپ نے یقین دلایا کہ گھر میں ڈسپوزیبل پلیٹیں موجود ہیں تو لینے کی ضرورت نہیں لیکن جب کھانا لگا تو پتہ چلا پلیٹیں نہیں تھیں، ہم کچھ نہیں بولے لیکن عین وقت پہ برتن نکالنا پھر انھیں سمیٹنا، ڈش واشر میں لگانا وغیرہ وغیرہ اس سے غیر متوقع طور پر ہمارا کتنا کام بڑھ گیا، آپ کو اس کا اندازہ ہے؟ ہم نے چشمِ تصور میں صاحب کو سوچ میں گم پایا اور کچھ شرمندہ بھی اور اپنی تقریر جاری رکھی،زرا سوچیں تو! سیانے کہتے ہیں کہ
جس کا کام اسی کو ساجھے
اور کرے تو ٹھینگا باجے
تو آپ بے شک بہت سے کاموں میں بے حد مددگار ہوتے ہیں لیکن بہرحال امورِ خانہ داری میں ہمارا تجربہ آپ سے زیادہ ہے تو کچھ چیزیں آپ کو ہم پہ چھوڑ دینا چاہییں
ہم نے دل ہی دل میں رسان سے اپنی اسپیچ مکمل کی۔
زیرے کی برنی خالی تھی، حفظ ماتقدم کے طور پہ سوچا کچن کی پینٹری میں وہ ڈبہ بھی دیکھ لیتے ہیں جہاں بچے ہوۓ مصالحوں کی ربر بینڈ لگے پیکٹ رکھے ہوتے ہیں تاکہ تقریر سے پہلے مکمل ثبوت پیش کر سکیں کہ دیکھیے نہیں ہے زیرہ، خواہ مخواں آپ نے ہم سے اتنی بحث کی اور اب تڑکے میں بھی زیرہ نہیں پڑ سکے گا۔
لیکن۔۔
قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا!
کچن سے ملحقہ چھوٹی سی الماری میں سے بچے ہوۓ مصالحوں کا ڈبہ نکال کے کھولا تو یک لخت ہمارے اندر کے ٹیڈ ٹالک سپیکر کی حرکتِ قلب بند ہو گئی اور سائیکلوجسٹ کومہ میں چلا گیا
کیونکہ ڈبہ کھولتے ہی جو پہلی چیز نظر آئی وہ زیرے کا بچا ہوا پیکٹ ہی تھا جس میں سے صاحب کا جیت سے مسرور فاتحانہ مسکراہٹ سے مزئین چہرہ بالکل اسی طرح نمودار ہوتا دکھائی دے رہا تھا جس طرح پرانی فلموں میں دور سے آیا خط پڑھتے وقت لکھنے والے کا مسکراتا چہرہ ابھر آتا ہے۔
ہم نے جلدی جلدی دماغ میں ہی اپنی تقریر کو لپیٹ کر کسی اور “مناسب” موقع کے لیے سنبھال رکھا اور اس سے پہلے کہ صاحب منظر میں وارد ہوتے، انھیں زیرہ دیکھ کے بحث یاد آجاتی، امور خانہ داری میں ایک پوائنٹ اور مل جاتا اور وہ زیرِ لب فاتحانہ مسکراتے، ہم نے چاول بگھارے، مرچیں تلیں اور دال میں تڑکہ لگایا، یوں بھی وہ زیرے کو بھول ہی چکے تھے( اب جتنے بھی ماہر سہی ہماری طرح انھیںُ اتنی باتیں تھوڑی یاد رہتی ہیں)
ہم بھی بھول گئے ہیں، آپ بھی نہیں یاد دلائیے گا، رہی بات ٹیڈ ٹالک اور تھراپی سیشن کی تو وہ پھر کسی اور وقت سہی فی الحال تو
جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سو جا!
قرۃالعین صبا