او کینیڈا ,ہم سب کی کہانی! (آخری حصہ)

جب بھی اپنے ملک سے نکل کر دوسری جگہ قدم جمانے ہوں تو سب سے پہلے اپنی سوچ میں تبدیلی لانا بہت ضروری ہے۔
اپنے قلیل تجربے کی بنیاد پر یہ ہیں کچھ نکات جو آپکو نئی جگہ اپنانے کو میں مدد دیتے ہیں۔
نئے ملک کی ثقافت اور طریقوں کو سمجھیں مثال کے طور پہ اگر یہاں کسی کے گھر جانے یا آنے سے پہلے اطلاع دینے کا رواج ہے تو اسکو برا بھلا کہنے اور پاکستان میں ایک دوسرے کے گھر بے دھڑک ہو کے نازل ہونے کو یاد کرنے کے بجائے اسکی وجہ سمجھنے اور اپنانے کی کوشش کریں مثلاً وہاں گھر کے سب افراد کا کام کرنے کا رواج نہیں،لوگ عمومآ جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے ہیں اور کوئی نہ کوئی آپکو کمپنی دینے کے لیے موجود ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ گھر بڑے ہوں یا چھوٹے ڈرائنگ روم مہمانوں کے لیے مختص ہوتا ہے جہاں عام گھر والوں کی آمد و رفت نہیں ہوتی اسلئے صاف ستھرا رہتا ہے ۔تیسری بات یہ کہ گھر میں ماسی اور نوکروں کی بھرپور امداد کے باعث اکثر گھر چمکتے دمکتے نظر آتے ہیں اور کوئی کسی بھی وقت آ جائے مہمانوں کو شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔مغرب میں عموماً ایک گھر میں ایک خاندان رہتا ہے ۔گھر چھوٹے ہوتے ہیں صفائی سے لیکر کھانے کے انتظامات تک سب کچھ گھر والوں کو خود کرنا ہوتا ہیں ۔سب لوگ مصروف رہتے ہیں۔گھر کی خواتین اگر جاب نہ بھی کریں تو بھی بچوں کے اور اُنہیں اسکول لانے لیجانے ،سودا سلف لانے اور گھر کے ہزاروں چھوٹے موٹے کام ہر وقت منتظر رہتے ہیں۔ایسے میں اچانک مہمان رحمت نہیں بلکہ زحمت معلوم ہوتے ہیں۔آپ اطلاع دے کر جائیں آئیں تو میزبان پرسکون ہو کر آپکی خاطر مدارات کر سکتا ہے اور اگر کسی وجہ سے معذرت کر لے تو اسمیں بھی برا مانے کی کوئی بات نہیں۔اصل میں اسلامی طریقہ کار بھی یہی ہے۔

جتنی جلدی آپ “یہاں” اور “وہاں” کا موازنہ کرنا چھوڑیں گے اتنی ہی جلدی آپ نئی جگہ کو اپنائیں گے ۔ اس بارے میں سوچنا چھوڑ دیں کہ وہاں آپکے پاس کیا کیا آسائشیں اور سہولتیں تھیں بلکہ یہ سوچیں کے یہاں آپکو کیاکیا نعمتیں میسر ہیں۔یہ سوچ سوچ کے خون نہ جلائیں کہ وہاں آپکی نند،بھاوج،جیٹھانی ماسیوں کی فوج پہ حکومت کر رہی ہیں اور یہاں آپ اپنے باتھ روم میں ٹاکیاں مار مار کے ہلکان ہیں۔آپ کو اللہ نے پہلی دنیا کے ملک کا معیارِ زندگی عطا کیا ہے جسکی اپنی سہولتیں اور آسانیاں ہیں ۔آپکی زندگی نسبتاً پروڈکٹیو ہے اور اسمیں دوسرے بہت سے مواقع میسر ہیں اور جب یہاں آپ کے قدم اچھی طرح جم جائیں گے تو ایک دن آپ میڈ بلانے کے قابل بھی ہو جائیں گے جو اپنی لگژری گاڑی میں بیٹھ کے آپ کے ہاں کام کرنے آئیگی۔

سردی کے مزے لیں۔ آسمان سے گرتے سفید موتیوں جیسے گالوں میں خوشی تلاش کریں۔سردیوں کے دن سخت اور اداس ہوتے ہیں لیکن مستقل شکایت اس مسئلے کا حل نہیں اسلیے اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو مصروف رکھنے کی کوشش کریں۔ اپریل کی بارشیں مئی میں پھول کھلاتی ہیں اور پھر چمکتی بہار اپنے جوبن پہ ہوتی ہے ،چیری بلاسم کے ہلکے گلابی پھول اور رنگ برنگے ٹیولپ آپ کے ہونٹوں پہ بے وجہ ہی خوشگوار مسکراہٹ لے آتے ہیں ۔
ایک مہینہ اور آگے بڑھتا ہے تو نرم سبک ہوا کے ساتھ موسمِ گرما کا آغاز ہو جاتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ کسی شہزادے نے آ کے سوئی ہوئے شہزادی کی بچی ہوئی آنکھوں کی سوئیاں نکال دی ہوں اور کسی جادو کے اثر سے سے سویا ہوا شہر ایک دم ہی جاگ گیا ہو۔ہر طرف ایک چہل پہل اور سر خوشی۔برف پگھل جاتی سردی میں شام چار بجے اندھیرے میں ڈوب جانے والے دن کھچ کے ایک دم رات ساڑھے نو بجے تک طویل ہو جاتے ہیں۔باغ رس دار اسٹرابیری،چیری،رس بھری،آڑو اور انواع اقسام کے پھلوں سے لد جاتے ہیں اور انہیں اپنے ہاتھ سے توڑ کر کھاتے ہوئے جنّت کا خیال آتا ہے۔ جھیلیں اور پارک آباد ہو جاتے ہیں اور باربی کیو کی خوشبو اور دھوئیں سے فضا مہکنے لگتی ہے۔
پھر جب آہستہ آہستہ یہ لمبے دن آپکو تھکانے لگتے ہیں تو اکتوبر کے اوائل میں میپل کے درختوں کا رنگ بدلنے لگتا ہے،سرخ ،زرد، نارنجی ،کتھی۔شجر سلھگنے لگتے ہیں۔ شام جیسے تھک کے جلدی گھر آنے کو بے قرار ہوتی ہے۔خزاں مدھم سروں میں بانسری بجاتی ہے تو ہر طرف جیسے رنگ ہی رنگ اور دھنیں بکھر جاتی ہیں (او کینیڈا تیرے موسم حسین ہیں )

اکیلے باہر نکلیں اور نئے راستوں کو اپنے طور پہ سمجھنے کی کوشش کریں۔بس اور ٹرین سے سفر کریں اس سے آپکو نئی جگہ سمجھنے میں مدد ملے گی اور آپ جلدی شہر سے مانوس ہونگے۔اگر آپکی دسترس میں ہو تو جلد از جلد ڈرائیونگ سیکھنے اور لائسنس حاصل کرنے کی کوشش کریں یہ ایک بہت بڑا مرحلہ ہے اور کینیڈا کے لمبے راستوں اور سخت موسم میں ایک بہت بڑی نعمت ہے۔
ہر چند کہ اس سوچ سے پیچھا چھڑانے میں بہت وقت لگتا ہے لیکن کسی بھی کام میں شرمندگی اور بے عزتی محسوس نہ کریں آپ اُس جگہ پہ ہیں جہاں ہر ایک کی عزت اور حقوق ہیں۔ بچپن سے دور دیس بسنے والوں کے بارے میں سنتے آئے تھے کہ باہر جانے والے اپنے ملک میں تو کام نہیں کرینگے لیکن وہاں جائیںگے تو چھوٹی نوکریاں بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں، اسوقت یہ سن کے پردیسیوں پہ ترس آتا تھا لیکن دراصل یہ ہمارے لوگوں کی کم علمی ہے ۔
سب سے پہلی بات یہ کہ ہمارے ملک میں
میں عزت اور پیسے کے پیمانے مختلف ہیں اور وجہ وہی ہماری ذہنیت اور طبقاتی فرق۔
مغرب کے بیشتر ممالک میں کسی بھی قسم کی نوکری کرنے والے کے لیے گھنٹے کے حساب سے کم از کم اجرت مقرر ہوتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنے حساب سے ہر قسم کی پارٹ ٹائم یا فل ٹائم جاب کر لیتے ہیں۔یہاں ہر کام کی عزت ہے، اور odd جاب بھی آپکا گھر چلا سکتی ہے اسلیے جب تک آپ اپنی فیلڈ تک نہیں پہنچتے اپنا سفر فخر کے ساتھ جاری رکھیں۔
ہر وقت ڈالر سے روپے کی تبدیلی اور حساب کتاب کرنا اور اس وجہ سے ہر چیز پاکستان سے منگوانے کی عادت کو جلد از جلد خیر آباد کہہ دینے میں ہی عافیت ہے۔
آپ چاہتے کچھ ہیں ،دوسرا کچھ سمجھتا ہے ،پھر بازاروں میں خوار ہو کے آپ کے لیے شاپنگ کرتا ہے،پھر سامان جمع کرنے سے لے کر منزل تک پہنچانے تک کئی لوگ پریشان ہوتے ہیں اسکے بعد آپکو کسی آنے جانے والے کی منت سماجت کرنی پڑتی ہے اور کبھی کبھی ناگوار باتوں کا سامنا بھی کرتا پڑتا ہے اور آخر میں اکثر آپ کے گھر کی چھوٹی چھوٹی الماریاں بیکار سامان سے بھر جاتی ہیں کیونکہ وہ آپکی منشا کے مطابق نہیں ہوتا ۔
جس دیس بھی ہجرت کی ہے وہاں کی زبان سیکھیں۔رنگ برنگے انگلش میڈیم اسکولوں نے اچھی انگریزی تو کیا سیکھانی تھی ہماری اپنی زبان سے بھی ہمارا تعلق کمزور کر دیا۔آپکی انگریزی جس لیول کی بھی ہو اسے مزید بہتر بنائیں۔نئےامیگرنٹس کے لیے قائم کیے گئے ای ایس ایل یعنی English as a second language اسکولز جوائن کریں،وہاں آپ اپنے جیسے بہت سے لوگوں سے مل کے اچھا اور پُراعتماد محسوس کریں گے اور نیا کلچر اور نئی زبان کے ساتھ ساتھ یہ کچھ گھنٹے کی کلاسیں آپکو اپنا ریزیومے بنانے،جاب انٹرویو کی تیاری کرنے اور اپنے آپ کواب گریڈ کرنے میں بھی مدد دینگی۔
والنٹیئر ورک کریں۔ اسکولوں،لائبریریو،اسپتالوں یا اور دوسری جگہوں پہ فی سبیل اللہ کام کرنا آپکی جیب تو نہیں بھرے گا لیکن آپکو مصروف رکھنے کے ساتھ ساتھ آپکے لیے نئے دروازے کھول دے گا۔آپ کے تعلقات بڑھیں گے۔آپ کو ماحول سمجھنے میں مدد ملے گی ،آپکی زبان اور بات چیت بہتر ہوگی اور کبھی کبھی اسطرح کام کرنا آپ کو اپنی پسند کی جاب حاصل کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے.
آخری لیکن سب سے اہم بات کہ اپنی صحبت مثبت لوگوں کے ساتھ رکھیں جو خود بھی اچھا سوچتے ہوں اور آگے بڑھنے کے متمنی ہوں اور آپکی بھی حوصلہ افزائی کا باعث بنیں۔سمجھدار اور اچھے دوست بنائیں۔ ہر وقت پاکستان کو یاد کر کے رونے والوں اور یہاں کی زندگی سے شکوے شکایتیں کرنے والوں سے دور رہیں۔انکی باتیں نا صرف آپ کو پریشان کریں گی بلکہ آپکی ہمت توڑ دینگی اور ساری مثبت توانائیاں بھی نچوڑ لیں گی۔
کامیابی کی کنجی یہ ہے کہ صبر اور ہمت کے ساتھ اپنے مقصد کے حصول کے لیے ڈٹے رہیں۔سالوں سے آباد ہوئے لوگوں کے طرز زندگی سے کم مائیگی نہ محسوس کریں کہ انکا سفر ممکن ہے آپ سے زیادہ سخت رہا ہو اور نجانے وہ کیا کیا جھیلتے یہاں تک پہنچے ہوں۔مثبت سوچیں،مصروف رہیں،موازنہ کرنا چھوڑ دیں ۔آہستہ آہستہ ہی سہی آگے بڑھتے رہیں اور جب آپکے قدم جم جائیں اور آپ کسی نئے امیگرنٹ سے ملیں جو پریشان اور اداس ہو،اپنے ملک کی محبت میں مبتلا اپنے گھر کو یاد کر کے روتا ہو اور اسے کوئی راہ سجائی نہ دیتی ہو تو اسکے سامنے شیخیاں بگھارنے کے بجائے اسے مسکرا کے خوش آمدید کہیں،ایمانداری سے گائیڈ کریں اور مہربان ہو کر سمجھائیں کہ آپ بھی کبھی اسکی جگہ پہ تھے اور ہر چند کہ سفر مشکل ہے لیکن اسکی ناؤ بھی سبک رفتاری سے چلتے چلتے ایک دن کنارے لگ جائیگی کیونکہ کینیڈا ایک پر امن اور خوبصورت ملک ہے⁦⁩۔
*
تصویر چیری کے باغ میں میری لٹل ریڈ رائڈنگ ہڈ کی ہے

(Visited 10 times, 1 visits today)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *