اسوقت نہ فیس بک اور واٹس اپ تھا اور نہ یو ٹیوب۔وائی فائی اور اسمارٹ فون پہ شاید موجد کام کر رہے تھے۔ دل بہلانے کے اسباب کم تھے،کتابوں کا ذخیرہ اسوقت بہت کام آیا۔ ٹی وی سے کچھ خاص رغبت نہیں تھی۔ پاکستان بات کرنے کے لیے میسینجر یا پھر کالنگ کارڈ خریدنے پڑتے تھے اور یاہو اور ایم ایس این میسنجر پہ آدھا وقت” آواز آ رہی ہے” “تصویر آ رہی ہے” کی نظر ہو جاتا ۔
تصویروں کا تبادلہ ای میل سے ہوتا تھا جو صبر کے ساتھ بیٹھ کے اپلوڈ اور ڈاؤن لوڈ کرنی پڑتی تھیں اور ویڈیوز کسی آنے جانے والے کے ساتھ سی ڈی یا کیسٹ کی شکل میں آتی تھیں۔ مسی ساگا میں آج سی گہما گہمی نہیں تھی۔ کچھ دیسی ریسٹورنٹس تھے جن میں اکثر پیچھے گھریلو خواتین ہی کھانا پکا رہی ہوتیں اسلیے کچھ خاص فرق نہ محسوس ہوتا ۔یوں بھی جو نیا نیا پاکستان سے آیا ہو اسکی زبان کے سب ذائقے باقی سب یادوں کی طرح دیر تک تازہ رہتے ہیں۔
حلال حرام کے مسئلے شاید اتنے نہیں تھے جتنے بنا دیے گئے تھے۔کچھ اس بارے میں اپنا علم بھی محدود تھا کچھ آتے ہی پالا بھی ایسے لوگوں سے پڑا کہ ہر چیز کھاتے ہوئے ذہن اسی میں اُلجھا رہتا اور زندگی عذاب محسوس ہوتی۔ہمارے آس پاس کے زیادہ تر احباب نئے تھے اور ہماری طرح کے حالات سے ہی گزر رہے تھے اسلیے اکثر محفلوں میں مثبت اور حوصلہ افزا باتوں کے مقابلے میں منفی سوچیں اور حوصلہ شکن گفتگو غالب رہتی۔
مصروفیت ہزار نعمت ہے ،آج کبھی جاب کبھی بچوں کے آگے پیچھے بھاگتے ،گھر اور باہر کے ہزار کاموں میں کیسے وقت گزرتاہے پتا بھی نہیں چلتا کہ کب شام ہوئی اور کب نیا دن بھی نکل آیا۔رہی سہی کسر اسمارٹ فونز نے پوری کر دی ہے۔
خالی دماغ شیطان کے گھر کے ساتھ ساتھ اُداسی،مایوسی اور ڈپریشن کا بھی گھر ہوتا ہے۔آپ تھوڑی دیر خالی بیٹھ جائیں یا صرف سو کے اٹھنے کے بعد خالی الذہن بستر پہ دراز رہیں آپکو زندگی کی وہ وہ محرومیاں اور حسرتیں یاد آئینگی جن کی طرف کبھی خوشگوار حالات میں دھیان بھی نہ گیا ہو۔آپ اپنے رشتےداروں کی کج رویاں یاد کر کے ان سے تصور ہی تصور میں ایسے ایسے بحث مباحثے اور تکرار کرینگے جو دراصل کبھی ممکن ہی نہ ہوں۔
(باقی آئندہ)
*
تصویر میں ہمارے پہلے گھر کی قد آدم کھڑکیوں سے نظر آنے والے “گو اسٹیشن” کا برف سے ڈھکا خوبصورت منظر ہے۔
او کینیڈا،ہم سب کی کہانی (دوسرا حصہ)
(Visited 1 times, 1 visits today)