اوپر تلے کے

Wishing a very Happy Birthday to My best Buddy and Brother 🥰 .
A blog dedicated to all the siblings who share a special bond of friendship and love.Like and comment If You have siblings ,and talking and laughing with them works for you like a stress relieving therapy.May God bless all our loved ones ,Ameen <3

بڑوں سے ہمیشہ سنا تھا کہ اوپر تلے کے بہن بھائیوں میں ہمیشہ تکرار رہتی ہے اور دوستی بھی اتنی ہی ہوتی ہے صحیح ہی سنا تھا،ہمارے گھر میں بھی کچھ ایسا ہی حال ہے . یحییٰ ،فاطمہ کے لئے ٹام اینڈ جیری کا جیری بنا رہتا ہے اور اسکا سایہ بن کے اسکا ناک میں دم کیے رہتا ہے .آپی یہ کیوں کر رہی ہو ،آپی یہ کیا کھا رہی ہو ؟،وہ ٹی وی پہ اپنا پروگرام دیکھنا چاہتی ہے تو اسکو سب چھوڑ کے اپنا پروگرام لگوانا ہوتا ہے ،وہ لیپ ٹاپ لے کے بیٹھتی ہے تو پیچھے سے دھپ سے بند کر کے لیپ ٹاپ اٹھا لاتا ہے کہ یہ لیں اماں آپی نے آپکا کمپیوٹر لے لیا تھا میں نے واپس لے لیا .کتاب پڑھتی ہے تو وہ بند کروا کے کہتا ہے کہ میرے ساتھ کھیلو .جب تنگ کرنے کا کوئی بہانہ سمجھ نہیں آتا تو جہاں وہ بیٹھی ہو وہاں سے ضد کر کے اٹھاتا ہے کہ میں یہاں بیٹھوں گا اور زیادہ موڈ میں ہو تو صاف صاف کہہ دیتا ہے کہ مجھے تو آپی کو تنگ کرنا ہے. لاکھ ڈانٹو ،جھڑکو ،سمجھاؤ کوئی اثر نہیں ہوتا ،دوسری طرف آپی چھوٹا سمجھ کے کبھی تو نظر انداز کر دیتی ہے اور کبھی کانٹے کا مقابلہ ہوتا ہے لیکن کھانا کھانا ہو ،کسی کے گھر یا مسجد جایں ،کوئی کھیل ہو یا کسی قسم کی ٹیم بنانی ہو وہاں آپی یحییٰ کی فرسٹ چوائس بن جاتی ہے .سب اوپر تلے کے بہن بھائی ایسے ہی ہوتے ہیں ،ہم بھی ایسے ہی تھے فرق یہ تھا کہ میں چھوٹی تھی اور فصیح بھائی بڑے فرق ہم دونوں میں بھی یحییٰ اور فاطمہ جتنا ہی تھا .چھوٹے تھے تو ہر الٹے سیدھے کھیل میں ساتھ ساتھ ہوتے تھے ،جو انکی عمر کے کھیل نہیں بھی تھے وہ بھی زور زبردستی پہ انھیں کھیلنا پڑتے تھے ،تھوڑا بڑے ہوے تو غربت کا زمانہ تھا لیکن خوشیاں بہت امیر تھیں ،دھوپ بھری سہ پہروں میں لمبا لمبا پید ل چل کے سستی والی آئس کریم کھا نے جاتے تھے جو بعد میں حلق میں چپکی ہوئی محسوس ہوتی تھی ،لیکن مزہ دراصل آئس کریم میں نہیں تھا بلکے ڈھیروں باتوں اور جانے آنے کی سرگرمیوں میں تھا، تھوڑی سی بہتری آئ ،تھوڑے دن بعد نیپا پہ “اسںنوپی ” بھی کھل گیا اب آئس کریم کا معیار ذرا بہتر ہو گیا ۔زیادہ عیاشی ہوتی تو بن کباب بھی شامل ہو جاتا .ابّا تھے نہیں تو سب بھائ بچپن کو خیر آباد کر کے جلدی جلدی بڑے ہو گئےقسمت سے جاب بھی جلدی ہو گئی اور تھوڑی اچھی ہو گئی پھر تو ہماری پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں .اب کبھی کبھی سپر اسٹورز سے جنک فوڈ کی شاپنگ بھی ہونے لگی یہ سارے کام بھی پید ل ہی ہوتے ایک بار اسٹور مینجر نے کہا کہ سر آپ ملاذم کو سامان دے دیں وہ گاڑی میں رکھ دیگا تو ہم تھینک یو کر کے باہر آگۓ اور خوب ہنسے کہ کونسی گاڑی کیسی گاڑی. تھوڑے عرصے بعد ایک تھکی ہوئی سوزوکی ایف ایکس بھی گھر آگئی تو گویا چاندنی ہو گئی ،گاڑی کوئی لگژری نہیں تھی لیکن ہر تھوڑے دن بعد کوئی نہ کوئی کام نکلنے کے باوجود وہ ہلتی جلتی گاڑی بذات خود ہمارے لئے ایک لگژ ری تھی جس میں لمبی ڈرائیو پہ جانے اور پھٹے ہوے سپیکروں پہ گانے سننے میں بھی مزہ آتا تھا .جس دن گھر میں کوئی دال سبزی قسم کی چیز پکتی یا بور ہوتے تو ہم دونوں گلشن چورنگی پہ گاڑی روک کے چٹ پٹی چاٹ پاپڑی کھا کے اور ملک شیک پی کے آجا تے اور سارا دن کی چھٹی ہو جاتی،گھر آ نے کے بعد امی کی صلواتیں بھی سنتے کہ اتنی روٹی کس کے لئے پکی تھی ،اب جب اپنے بچے ایسا کچھ کرتے ہیں تو وہ ڈانٹ کچھ کچھ سمجھ میں آتی ہے .
.کبھی کبھی فراز بھائی اور ذیشان بھائی بھی اس آوارہ گردی میں شریک ہو جاتے تو اور مزہ آتا .سچ کہوں تو وہ والی خوشی شاید ہم سب کو اپنی اپنی زیرو میٹر لگژری گاڑیوں میں بیٹھ کر اور ملکوں ملکوں گھوم کے بھی محسوس نہیں ہوتی شاید اسلئے کہ خوشیاں سامان سے نہیں بلکے صحبت سے وابستہ ہوتی ہیں ،اسی ایف ایکس پہ پہلی بار گاڑی چلانا بھی سیکھی اور ماری بھی🙈 .اس وقت سب ویلے تھے نہ شادی نہ بچے نہ ذمہ داریاں اب خوشیوں کا رخ اور معنی بدل گئے ہیں . یونیورسٹی کا ٹائم آیا تو بھی فصیح بھائی آگے آگے . ٹیکنالوجی سے لگاؤ اپنی جگہ لیکن رجحان تو شروع سے رنگوں ،آرٹس اور سائیکولوجی میں تھا ،ایک ہفتہ ایسا بھی آیا کہ فیصلہ اسی حق میں ہو گیا ،لیکن پھر بجھی بجھی آواز آئ اچھا دیکھ لو ،پھر دماغ میں آیا انجینیرنگ ہی ٹھیک ہے اور اب ہمیشہ اس فیصلے پہ کلمہ شکر نکلتا ہے ،کوئی بھی پروفیشنل تعلیم اور محنت آپکی پوری زندگی،رویوں اور نظریات پہ اثر انداز ہوتی ہے . بعد میں آرٹس کا شوق بھی پورا ہوگیا یوں بھی زندگی میں مختلف لوگوں سے مل کے اور رنگ برنگے رویوں سے نبرد آزما ہو کے ہر آدمی تھوڑا تھوڑا سایکلوجسٹ بن ہی جاتا ہے یا پھر سائکو ہو جاتا ہے. .شادی کا ٹائم آیا تو وقت کم تھا اور اکمل کو واپس کینیڈا آنا تھا ،بڑے بھائی بھی امریکا میں تھے ، دو بھائیوں کی جاب دوسرے شہر میں تھی دونوں ایک دن کے لئے ملنے آے ۔ا کمل نے بعد میں کہا کہ مجھے الجھن ہو رہی تھی کہ بڑے بھائی تو کچھ پوچھ نہیں رہے اور سب سے چھوٹے ہیں کہ انٹرویو لینےپہ تلے ہیں .اب انکو کیا پتہ کہ ان چھوٹے بھائی کی مثال “ساری خدائی ایک طرف اور جورو کا بھائی ایک طرف “والی ہے .زندگی کے جھمیلے، ذمہ داریاں اور فاصلے اپنے ساتھ بے فکر وقت اڑا لے جاتے ہیں لیکن ہماری دوستی ابھی تک ایسی ہی ہے،واٹس اپ اور باٹم کی ٹن ٹن ہمیں اب بھی جوڑے رکھتی ہے اور جب ہم سب ملتے ہیں تو بے تکی باتوں پہ بھی کھل کے ہنستے ہیں یقینا بہن بھائیوں کے ساتھ ہنس کے گزارے ہوے وقت سے بہتر تھراپی کوئی نہیں ہوتی . جب فاطمہ بھائیوں کی چھیڑ خانی سے چڑ جاتی ہے اور بسورنے لگتی ہے تو میں اسکو اسکے ماموؤں کی کہانیاں سناتی ہوں کہ یحییٰ اور بھائی ابھی تنگ کرتے ہیں لیکن جب بڑے ہو جاینگے تو یہ تمہارے سب سے اچھے دوست ،اسٹریس ریلیور اور سب سے بڑی سپورٹر ہونگے .اس دن بھی ہم فاطمہ کو سمجھا رہے تھے کہ یحییٰ تمہیں اسلئے تنگ نہیں کرتا کہ وہ تم سے لڑنا چاہتا ہے بلکے وہ دراصل تمہاری توجہ چاہتا ہے اور تمہارے ساتھ وقت گزرنا چاہتا ہے اسلئے کہ وہ تم سے بہت محبّت کرتا ہے ،اور یحییٰ صاحب بھی فورا بول پڑے “آپی ،میں تم شے بوت مہمند کرتا ہوں “اور آپی کی ہنسی چھوٹ گئی.

اوپر تلے کے
(Visited 2 times, 1 visits today)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *