بچپن کی ہنسی کی ایک اور یاد، عمر شریف صاحب بھی چل بسے!

ہم ایک کنفیوز قوم ہیں ،ہم بچپن سے لڑکپن اور جوانی سے بڑھاپے تک جن لوگوں سے اپنے لیے ہنسی، مسکراہٹ اور تر و تازگی کے لمحے چرا کے تازہ دم ہوتے ہیں اور اپنی زندگی کی تلخ حقیقتوں اور مسئلے مسائل سے نمٹنے کے لیے توانائیاں حاصل کرتے ہیں کبھی اُن لوگوں کو انکا صحیح مقام اور وہ عزت دینے کو تیار نہیں ہوتے جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں کامیڈین، اداکار، گلوکار،صداکار، رائٹر ،شاعر الغرض ہر قسم کے آرٹسٹ ہماری منافق سی معاشرتی قدروں اور اپنی اپنی مذہبی عینکوں کے پیچھے سے ہمارے لیے ہمیشہ ایک عجوبہ ہی رہتے ہیں۔ ہم انکی باتوں پہ مسکراتے ہیں ،اُنکے نغموں پہ گنگناتے ہیں، اُنکے لکھے اور کہے ہوئے جملوں کو اپنی زندگی کے مختلف ادوارں پہ یاد کر کے اپنی زندگی کے سفر میں آنے والی اندھیری گھپاؤں میں امید کی شمعیں روشن کرتے ہیں، اتفاقاً وہ کہیں مل جائیں تو اُنکے ساتھ تصویریں بنواتے ہیں ،اپنے دوستوں کو فخریہ بتاتے ہیں لیکن معاشرے میں اُن کے مقام اور عزت کے بارے میں ہمارا رویہ مختلف ہوتا ہے۔
آج پیچھے دیکھوں تو آرٹ اور آرٹسٹوں کے جتنے رنگوں نے اداس لمحوں اور تلخ وقتوں میں تھوڑی دیر سب کچھ بھلا کے خوشی کا سامان کیا وہ لمحے مجھے انکا ایک صدقہ جاریہ معلوم ہوتے ہیں۔
بہُت بچپن میں عمر شریف صاحب سے تعارف ہوا جب اُنکی آواز آڈیو کیسٹ میں سنی۔کیسٹ بھی وہ جو کونے والے پڑوسیوں سے مانگ کے لائی گئی تھی اور بڑے اہتمام سے ٹیپ ریکارڈر پہ لگا کے سب نے سنی، اسمیں ایک دیہاتی کے جہاز کے سفر کا ذکر تھا اور ایئر ہوسٹس کے ساتھ اُسکے ڈائیلاگ تھے جس میں آخر میں وہ غصّہ ہو کے کہتی ہے کہ آپ آخر اناؤنسمینٹ کے باوجود جا کے بیٹھتے کیوں نہیں جہاز میں؟ تو وہ کہتے ہیں کہ ٹکٹ میں نے جہاز کا لیا ہے اور وہ مجھے بس میں بٹھا رہے ہیں، سب ہنستے لیکن اسوقت ہم جہاز میں نہیں بیٹھے تھے اسلیے یہ لطیفہ ہمیں سمجھ نہیں آتا تھا ۔جب پہلی بار جہاز کا سفر کیا تو پھر وہ کیسٹ یاد آیا۔
اُسکے بعد پی ٹی وی پہ شاید “ایک فنکار” کے نام سے چار پانچ منٹ کا ایک سیگمنٹ کبھی بھی نشر ہو جاتا تھا اسمیں کبھی معین اختر ،کبھی عمر شریف ،کبھی خالد عباس ڈار اور اسوقت کے دوسرے آرٹسٹ اسٹینڈ اپ کامیڈی کرتے تھے ،جو جہاں ہوتا سب چھوڑ چھاڑ ٹی وی کے آگے آکے بیٹھ جاتا ،رپیٹ اور ریکارڈنگ کی عیاشیاں تو میسر نہیں تھیں جو مس کر دیتا اُسے تھوڑا افسوس ہوتا۔وہ تھوڑی دیر کی ہنسی جیسے اچانک ملنے والی بہُت ساری خوشی تھی۔بہُت مزا آتا۔
اُسکے بعد پی ٹی وی کے ایوارڈ شو کی بڑی ایکسائٹمنٹ ہوتی، آنکھیں مل مل کے جاگا جاتا اور پھر اس میں ان کا سیگمنٹ، گفتگو اور کمنٹری جیسے ایک اور ٹریٹ، اسٹیج شو “بکرا قسطوں پہ” آیا تو خُوب دھوم مچی،کچھ کچھ یاد ہے کہ ویڈیو کیسٹ کرائے پہ لا کے دیکھا کرتے تھے لیکن اسٹیج کا مزاج مختلف تھا اسلیے گھر میں کچھ پابندی رہی۔
تھوڑا بڑے ہوئے تو این ٹی ایم کے رنگ برنگے پروگرام آ گئے ، اسمیں عید کی تین دن کی ٹرانسمشن کو بہُت شوق سے دیکھا جاتا، اسمیں عید کا شو اور اُسکے پرومو میں عمر شریف صاحب کے بیساختہ جملوں نے بہُت دن مسکراتا رکھا، پھر این ٹی ایم پہ ہی “ہپ ہپ ہرے” آیا، یہ بھی آرٹسٹوں کے ساتھ ایک گیم شو تھا جس کو سب مل کے دیکھتے۔ اُسکے بعد چینل اور پروگراموں کا جیسے سیلاب آ گیا ،پھر انٹرنیٹ یو ٹیوب ۔
اب بھی کبھی کوئی کلپ نظر سے گزر جاتا ہے تو تھوڑی دیر کے لیے سارے مسئلے مسائل جیسے پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور لبوں پہ بے ساختہ مسکراہٹ آ جاتی ہے اب آپ ہی بتائیں زندگی کے اُتار چڑھاؤ سے ہر پل نبرد آزما بندوں کو ایسی مسکراہٹ کا تحفہ دینا صدقہ نہیں تو اور کیا ہے ۔
بچپن کی ایک اور یاد ، ہنسی اور مسکراہٹوں کا ایک اور باب اپنے اختتام کو پہنچا۔
اللہ تعالیٰ عمر شریف صاحب کی مغفرت فرمائے اور اُنہیں جنّت میں ہنستا مسکراتا رکھے، آمین

(Visited 1 times, 1 visits today)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *