بچوں کا ادب اور کتابوں کا شوق سفر (پہلا حصہ)

کتابیں پڑھنا کیوں کم ہوگیا ہے اور بچوں کی کتابوں سے دلچسپی کیوں ختم ہوگئی ہے ؟ اسکی وجہیں بہت سی ہیں جیسے بچوں کے پاس بہت سے اور آپشن آ گئے ہیں ،بچوں کے لئے جدید دور کے حساب سے ادب اور کتابوں کی تخلیق کم ہو گئی ہے لیکن اسکا سادہ اور آسان سا جواب یہ ہے کہ بڑوں نے کتابیں پڑھنا اور قصّے کہانیاں سننا اور سنانا چھوڑ دیا ہے.
بچے شعوری اور لا شعوری طور پہ اپنے اطراف کے بڑوں کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں .پہلی انسپیریشن والدین سے آتی ہے عموما گھر میں جو بھی کام والدین کر رہے ہوتے ہیں بچہ کے کورے دماغ میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ یہ کام اسی طریقے سے ایسے ہی کیا جاتا ہے.ابتدائی عمر میں لڑکیاں ماؤں کی اور لڑکے باپ کے ہر ہر کام کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
بچپن میں پہلی بار شوق سے کیا پڑھا تھا یہ تو یاد نہیں لیکن ابتدا اسوقت ہوئی جب اطراف میں سب کو کتابوں میں گم پایا ایسا لگا کے یہ کوئی بہت اہم اور دلچسپ کام ہے۔اخبار سب ہی پڑھتے تھے ،جس وقت پڑھنا نہیں بھی آتا تھا اس وقت بھی اخباروں اور میگزینوں کی رنگ برنگی تصویریں اچھی لگا کرتی تھیں .گھر میں ماشا الله چار بھائی تھے ،لڑکوں کا گھر تھا اسلئے جب چھٹیاں ہوتیں تو خاندان کے باقی لڑکے بھی ہمارے گھر میں جمع ہو جاتے یہ سلسلہ ایک عرصے تک چلا کمپیوٹر اور گیمز کا کوئی سلسلہ نہیں تھا بعد میں ایک بار بنا بھی تو نکال باہر کر دیا گیا کہ یہ ایک لت ہے اسلئے جب سب کرکٹ،بھا گ دوڑ اور کھیل کود کے فارغ ہو جاتے تو کوئی “ٹارزن کی واپسی ” لے کے کونہ پکڑ لیتا اور کوئی “امیر حمزہ ” میں کھویا ہوا ملتا اور وہ وقت ہمارے لئے خاصا بورنگ ہو جاتا کیونکے اسوقت پڑھنا نہیں آتا تھا.تھوڑی سمجھ آئ تو انہی کتابوں میں سے امی یا فصیح بھائی کوئی کہانی پڑھ کے سنا دیتے تھے .ایک رات کو امی نے سعید لخت صاحب کی “حافظ جی ” پڑھ کے سنائی ،بچپن میں ہنسی تو ویسے ہی نہیں رکتی ہنس ہنس کے برا حال ہوگیا ،حافظ جی ،ملا پلاؤ ،نانی ٹخو ،سعید اور سیما کی شرارتوں نے بہت ہنسایا .اسوقت سے سعید لخت فیورٹ ہوگئے اور یہ کہانیاں بار بار پڑھیں .تھوڑی سی خوشحالی آتی تو امی ہمیں لے کے اردو بازار چلی جاتیں ،وہاں بہت سی اور دکانوں کے علاوہ شیخ غلام علی اینڈ سنز کی بہت بڑی دکان تھی .ہر طرف کتابیں ہی کتابیں بلکل ایلس ان د ونڈرلینڈ والا احساس ہوتا .”ایک” اور “دو” روپے والی کتابوں کے ڈھیر ہوتے جس میں دو روپے والی کہانیاں زیادہ اچھی لگتیں کیونکے انکا کاغذ اور چھپائی کافی اچھی ہوتی .سب اپنی اپنی پسند کی کتابوں سے تھیلے بھر لیتے اور ایک عرصے کا اسٹاک ہو جاتا۔
بچوں کے اردو رسالوں کا معیار بہت اچھا تھا “نونہال “،”آنکھ مچولی “،”تعلیم و تربیت “،”خزانہ “،ان سب میں تربیت کا بہت سامان تھا .نونہال کے خاص نمبر کے ساتھ کوئی چھوٹا سا تحفہ بھی آتا جو عموما “آٹوگراف بک “ہوتی اور جس پہ حکیم محمّد سعید کے اقوال زریں درج ہوتے .یہ بھی ایک قسم کی صحت مند ایکٹیویٹی تھی جس پہ ٹیچروں ،بڑوں اور دوستوں سے آٹوگراف لئے جاتے اور اسطرح سے سب کو سوچنے اور لکھنے پڑھنے کا موقع ملتا۔
تیسری کلاس میں پہلا ناول “چھنگلو میاں کے کارنامے ” پڑھا ،چھنگلو میاں دراصل چھنگلی یعنی چھوٹی انگلی کے برابر ایک کردار تھے جو اپنے دوست اور مالک کے ساتھ مل کر کرتب دکھایا کرتے تھے .کتاب اٹک اٹک کے پڑھی اور کافی دن میں ختم ہوئی لیکن آہستہ آہستہ روانی آگئی پھر ایک سلسلہ چل نکلا .”داستان امیر حمزہ” اور دوسری کتابوں نے کئی دن سحر زدہ رکھا .مقبول جہانگیر اورسلیم احمد صدیقی کی “تین ننھے سراغ رساں ” کی سیریز جس میں تین دوست عنبر ،نسیم اور عاقب مختلف گتھیاں سلجھاتے تھے بڑا مزہ دیتی تھیں .”ننھے شیطان کی ڈائری ” سے ڈائری لکھنے کی انسپراشن ملی اور لکھنے کا آغاز ہوگیا .غالبا چار پانچ سال کی عمر میں پہلا شعر یاد کیا تھا
یہ دو دن میں کیا ماجرا ہوگیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہوگیا
اسکے بعد امی نے بہت سارے اشعار یاد کروا دیے ،اب یہ نیا کیسٹ چل نکلا جہاں جاتے شاعری سنانے کی فرمائش ہوتی ،شاید جب سے ہی خوبصورت جملوں سے لگاؤ اور شاعری کا شوق اندر کہیں رچ بس گیا۔
اردو اور کہانیوں میں دلچسپی میں ایک بڑا کردار فرید احمد کی کیسٹ کہانیوں کا بھی ہے .ای ایم آئ والوں کی فرید احمد کی پروڈیوس کی ہوئی کیسٹ کہانیوں میں بیگم خورشید مرزا،نور میاں ،قاضی واجد اور دیگر صداکاروں کی آوازیں ،سلیس اردو ،متوازن اور سبق آموز کہانیاں اور لہجے کے زیرو بم بچوں اور بڑوں کو سحر زدہ کر دیتے تھے اور سب اپنی اپنی دنیا میں کہانی تخلیق کر کے کھو جاتے تھے .ساتھ میں ارشد محمود کی کمپوسنگ میں مزے مزے کے گانے ایک ٹریٹ کی طرح ہوتے تھے جو آج بھی اسوقت کے بچوں کو یاد ہیں .ہمیں وہ کہانیاں تمام ڈائلاگ سمیت حفظ ہو گیئں تھیں .اماں کے گھر کے سامنے زیدی صاحب کا گھرانہ تھا انکے ماشااللہ بہت سارے بچے تھے ،وہ بہت شوق سے اپنےگھر بلاتے اور ان کے بچوں کو کہانیاں سننے کا لالچ ہوتا یوں بغیر ٹیپ ریکارڈر اور کیسٹ کے خرچے کے پوری پوری “شہزادی گلفام ” اور دوسری کہانیاں فری میں ان تک پہنچ جاتیں .اسیطرح میری بچپن کی دوست شائستہ کے ابّو اور ہمارے خالو جنہیں سب عاقل بھائی کہتے ہیں بہت محبّت سے جب اپنے گھر بلاتے تو جب رات کو انکے بڑے سارےصحن میں کھلے آسمان کے نیچے پلنگوں پہ لیٹنے کے بعد خاموشی چھا جاتی تو انکی فرمائش پہ پھر ہمارا ٹیپ ریکارڈر آن ہو جاتا بعد میں جب انکا گھر بنا تو گھر بڑا ہوگیا اورکھلا کھلا صحن ہمارے بچپن کی بہت سی یادیں لیکر گھر میں شامل ہوگیا .
(جاری ہے)
قرۃ العین صبا

(Visited 1 times, 1 visits today)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *