آج “ہم خیال” نہیں ہو سکا، آج گھر میں خاصا گہما گہمی اور کام شام کا ماحول ہے کیونکہ کل جگ بیتی کی مصنفہ، بچوں کی نانی اور ہماری امّاں پاکستان سے آ رہی ہیں۔صفائیاں جوبن پہ ہیں، نانی کا کمرہ ٹھیک کرنا ہے،الماری میں جگہ بنای جا چکی ہے کیا پکے گا ، نانی کو پلاؤ پسند ہے ، سالن اچھا لگتا ہے، ایئرپورٹ کب جانا ہے؟ یحییٰ تو جب سے ویلکم سائن بنا رہے ہیں جب نانی کے آنے کا بھی کوئی امکان نہیں تھا سو ایک میلہ اور اہتمام سا ہے۔
ضرورت نہ بھی ہو تو ایسے موقعوں پہ ہم بچوں کو ساتھ لگا لیتے ہیں۔ گھر میں کوئی بھی مہمان آ جا رہا ہو تو بچوں اور اُنکی سیٹنگز کو اس سے کٹ کے نہیں رہنا چاہیے یہ ہمارا مشترکہ خیال ہے اور یہ بات ہم نے ایک پرانے پروگرام “ڈالڈا کے دسترخوان” میں مرحومہ زبیدہ آپا کے ایک انٹرویو سے سیکھی کہ آپ چاہے چھوٹے گھر میں رہتے ہوں یا بڑے، امارات ہو یا تنگ دستی، بچوں کے اپنے کمرے بھی ہوں تو اُنکی تربیت ایسی کرنی چاہیے کہ اگر انکو اپنی جگہ چھوڑنی پڑے یا بیڈ چھوڑ کے زمین پہ سونا پڑے تو وہ منہ نہ بنائیں اور نہ اُنہیں تکلیف دہ لگے۔اسوقت تو ہم خود بچے تھے پھر بھی پتہ نہیں کیسے یہ بات ذہن میں جیسے جذب ہو گئی۔
ہم جس ماحول میں بڑے ہوئے وہاں پرسنل اسپیس اور پرائیویسی کا کوئی خاص تصور نہیں تھا جو کہ ایک لحاظ سے اچھی بات بھی نہیں لیکن جب سے یہ باتیں سمجھ میں آئی ہیں ہم میں سے بیشتر لوگوں نے اپنے بچوں کو پرنس اور پرنسز بنا لیا ہے ۔کوئی آئے یا جائے اُنکی جگہ اور پرائیویسی متاثر نہیں ہونا چاہیے ،اُنکے آرام میں خلل نہ آئے اسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اُن میں اپنی چیزیں شیئرنگ کرنے کا حوصلہ ہی نہیں رہتا اور زندگی چونکہ ہمیشہ ماں باپ کے پروں کے سائے تلے بسر نہیں کی جا سکتی، چاہیں نہ چاہیں باہر کی دنیا میں نکلنا ہی پڑتا ہے اور باہر ماں باپ نہیں ہوتے دنیا ہوتی ہے، اونچ نیچ ہوتی ہے، تھپیڑوں ہوتے ہیں ،زندگی ایک سی نہیں رہتی ،کبھی پرائیویسی کے ساتھ مخملی بستر بھی میسر ہوتا ہے تو کبھی سونے کے لیے دری بھی حصے میں آتی ہے جس پہ دس اور لوگ بھی حصے دار ہوتے ہیں ، اپنی محبوب چیزوں کی قربانی بھی دینی پڑتی ہے اور اُنہیں نہ چاہتے ہوئے بانٹنا بھی پڑتا ہے ایسے میں “نہ” سننے کی عادت نہ ہو اور ہمیشہ خاص رہنے کئی عادت پڑی ہوئی ہو تو بہُت خواری ہوتی ہے اور مشکلات ڈبل ہو جاتی ہیں ساتھ ہی ساتھ بچے اہتمام کرنے ، دوسروں کے لیے خوش ہونے اور آس پاس والوں کی تکریم اور بانٹنے کے آداب بھی نہیں سیکھ پاتے نتیجتاً ایک بیزار قسم کا مزاج لے کر بڑے ہوتے ہیں۔
عموماً میکے یا سسرال سے کوئی بھی رہنے آئے بڑے بیٹے کو کمرہ چھوڑنا ہوتا ہے کیونکہ اُسکا کمرہ اور بیڈ دوسری بچوں کی نسبت بڑا ہوتا ہے آجکل بیسمنٹ زیر تعمیر ہے تو ابّا کا آفس بھی کمرے میں آ سمایا ہے ،اس بار بیٹی کی باری ہے ۔نانی اور نواسي روم میٹ ہونے والی ہیں ،نانی کے اعزاز میں الماری اور ڈریسر میں جگہ بنا دی گئی ہے ،یحییٰ کے بیڈ پہ فاطمہ اور بھائی کے ساتھ یحییٰ۔ بھائی کی ٹانگیں لمبی ہیں اسلیے وہ ترچھا سوتا ہے یحییٰ کی ٹانگیں سوتے میں آزاد ہو جاتی ہیں سو جب تک بیسمنٹ نہیں بن جاتا روز صبح شکایتوں کا دفتر ہوگا اور ہم ہونگے یا پھر یحییٰ ہمارے بستر پر ہوگا لیکن یحییٰ کے لیے بھائی کے کمرے میں سونا گویا ڈریم کم ٹرو ہے اور ہمارے نزدیک یہ بھی بونڈنگ اور سیکھنے کا ایک عمل ہے۔
اب آئیے دوسرے پہلو کی طرف، جب بھی نانا نانی یا دادا دادی کسی بھی گھر میں رہنے آتے ہیں گھر کا ماحول اور فضا میں گرمی سردی در آتی ہے۔ کیونکہ ساتھ مستقل کا نہیں ہوتا تو بچوں کی ہر ہر بات کو نوٹ کیا جاتا ہے، سرزش اور نصیحتیں کی جاتی ہیں، تربیت کے پہلوؤں کو کبھی توصیف اور کبھی تنقید کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، کبھی اپنی مثال دی جاتی ہے اور کبھی اپنے زمانے یاد کیے جاتے ہیں۔
عمر کے ساتھ ساتھ آدمی کا مزاج بھی اپنی پسند نا
پسند ،عادات اور روٹین کے معاملے میں پکّا ہوتا جاتا ہے۔ بزرگوں کے لیے کھانا اُنکےوقت پہ تیار نہ ہو اور پسند نہ آئے تو اسکا بھی برملا اظہار ہو جاتا ہے کبھی کھانا صبح سے تیار کر دو تو بھوک ہی نہیں لگتی۔کبھی ایک چیز کو کہا جاتا ہے کہ یہ کھانا ہضم نہیں ہوتا اور کسی اور وقت وہی چیز شوق اور رغبت سے کھائی جا رہی ہوتی ہے اور آدمی سوچتا ہی رہ جاتا ہے۔
کچھ دن پہلے ایک خاتون ملیں کہنے لگیں کہ چاول پکاؤ تو ساس کا پیٹ نہیں بھرتا اور روٹی پکاؤ تو چاول کی فرمائش کرتی ہیں،میں ہنس پڑی کہ ہے کہانی تو اپنی اپنی سی ہے کہ کبھی دونوں چیزیں بھی ہوں تو کسی تیسری چیز کی فرمائش آ جاتی ہے۔
سارے بڑے ایسے ہی ہوتے ہیں ، بزرگ مرد اس معاملے
میں کبھی کبھی زیادہ توجہ طلب ہو جاتے ہیں جب وہ ایک وقت کا کھانا دوسرے وقت کھانا پسند نہیں کرتے کھانا تازہ ہونا چاہیے اور وہ بھی تازہ اتری روٹی کے ساتھ(ہائے).
مجھے لگتا ہے کہ بوڑھے ہوتے ہوتے سب انسان ایسے ہی ہو جاتے ہیں، محنتوں سے تھک چُکے ہوتے ہیں، کڑواہٹیں سہ چُکے ہوتے ہیں، ہڈیوں میں طاقت نہیں رہتی،ذائقے پکّے ہو جاتے ہیں اور زبان بزرگی کا رتبہ پا کے اظہار کے معاملے میں تھوڑی ایزی ہو چکی ہوتی ۔
ہماری نانی امّاں بھی ایسی ہی تھیں، اُنکے الماری پہ رکھے کنگھے کی کوئی جگہ بدل دے، یا اُنکے خلال کے ڈبے کو کوئی بچہ چھیڑ دے تو غصّہ ہو جاتی تھیں۔
ہماری امّاں کی اپنی عادتیں ہے ، انکا سالن روٹی، سبزی اچھی پکی ہونی چاہیے، چادر ہر ہفتے نہ بدلو یا کھلے کھلے رنگوں والا پرنٹ نہ بچھاو تو دوبارہ بدلتی ہیں، بچوں کو پتہ ہے کہ نانی کو لیکوڈ سوپ کے بجائے صابن کی ڈلی چاہیے ہوتی ہے اور چاہے مشین میں لاکھ نازک کپڑوں کا الگ آپشن ہو اُنہیں اپنا جوڑا ہاتھ سے دھوکر ہی لٹکانا ہوتا ہے، گرمیوں میں تو اُنکے اعزاز میں الگنی لٹک جاتی ہی ہے لیکن سردیوں میں کپڑے ٹانگنا ایک مشکل عمل ہو جاتا ہے۔
تو دوستوں یہ بزرگی اور بڑھاپے کے مزے ہیں اور چاہیں
نہ چاہیں ہم بھی بڑھاپے میں اپنے بڑوں کا عکس بن جاتے ہیں بس کوشش یہ ہونی چاہیے کہ یہ عکس پچھلے سے بہتر ہو اور اگر آج ہم یہ سب اپنے بچوں کو نہیں سکھائیں گے تو کل اُنکے اور ہمارے لیے تھوڑا مشکل ہو جائیگا
اس بار امّاں خاصی بیماری جھیل کر آ رہی ہیں ،دعا کریں کہ سارا سفر آسان ہو اور قیام خوشیوں،صحت اور عافیت کے ساتھ گزرے، آمین
بڑھاپے
(Visited 1 times, 1 visits today)