مہینوں بعد اپنے گھر کی کھڑکی سے پہلی صبح کیسی لگتی ہے؟
یہ وہی جان سکتے ہیں جنہیں مجبوراً یا جبراً اپنے گھر سے دور رہنا پڑے!
اور یہ ضروری نہیں کہ آپکے گھر کی کھڑکی سے نظر آنے والا منظر بے حد حسین اور خوبصورت ہو۔۔
یہ سامنے والوں کے گھر کی عام سی چھت بھی ہو سکتی ہے!
یہ کوئی ہرا بھرا درخت بھی ہو سکتا ہے یا پھر کوئی مصروف یا خاموش سڑک،فقط جھاڑ جھنکاڑ بھی یا پھر چٹیل میدان اور کوئی سنسان بیابان بھی ہو سکتا ہے!
بس وہ منظر آپکو اچھا لگتا ہے کیونکہ آپکی آنکھیں اسے روز دیکھنے کی عادی ہوتی ہیں اور وہ “آپ کے” گھر کی کھڑکی سے نظر آتا ہے..
انسان عادتوں کا محتاج ہو جاتا ہے۔وہ تھوڑی دیر کے لیے تو تبدیلی کے مزے لے لیتا ہے لیکن پھر اکتا نے لگتا ہے۔
اسلئےہم ہجرت کرنے والے پردیسیوں کی زندگی کبھی نارمل نہیں ہو سکتی ۔
ہم جہاں آدھی زندگی گزارتے ہیں آدھا دل بھی وہاں کی ہواؤں اور خوشبو سے لپٹ کر وہیں رہ جاتا ہے ۔
ماں باپ، بہن بھائی بھاگتی دوڑتی زندگی میں ایک پڑاؤ کی مانند ہوتے ہیں ۔ایک جگہ موجود ہوں تو آدمی تھوڑی دیر کے لیے رک کے سستا لیتا ہے ۔مل لیے، کھل کے ہنس آئے ،ساتھ کھا پی لیا اور دوبارہ تازہ دم ہو کے اپنی روٹین میں واپس۔
پردیسی کا ملنا بھی نارمل نہیں ہوتا ۔ہمیں یہ بریک لینے ہوں تو پہلے سال بھر پہلے سے پلاننگ کرو، کم دنوں کے لیے ساتھ سمندر پار کرو تو دل دکھتا ہے ،ہائے اتنے سارے پیسیوں سے تو اور کام بھی ہو سکتے تھے لیکن پھر وہی وطن اور اپنوں کی محبت غالب آ جاتی ہے۔اسکا بھی کوئی بدل ہے بھلا ؟
اب ملنے کے لئے رہنا بھی ضروری ہے ،زیادہ دن رہو تو بھی گلٹی فیلنگ کہ میزبان کو یہ نہ لگے کہ یہ تو سوار ہی ہو گئے ۔
واپسی کے خیال سے دل ڈوبتا محسوس ہوتا ہے کہ پتا نہیں اب کب ملیں۔
پردیسی دل کامضبوط ہو کے سمجھوتوں کا دوست بن جاتا ہے۔
زندگی کی منزلیں اور مرحلوں سے اکیلے نمٹنا آپکو پکّا کر دیتا ہے ۔جو آنکھیں کبھی چھوٹی چھوٹی باتوں پہ برس پڑتی تھیں اور جو دل ہلکی پھلکی بحث اور غصّے میں بھی بھر آتا تھا خوشی ہو یا غمی آہستہ آہستہ ایسا مضبوط ہو جاتا ہے کہ بڑی بڑی باتوں پہ بھی آنسو نہیں نکلتے ۔
ماں باپ بیمار ہیں،بہن بھائیوں کی فکر ہے تو دوسری طرف اولاد ہے جو یہیں پیدا ہوئی اور پنپ رہی ہے انکے لیے تو یہی گھر ہے ۔انکا دل ہماری طرح وہاں تھوڑی اٹکا ہے
والدین کو اللہ سلامت رکھے اور بہن بھائیوں کی خیر ہو ۔پردیسی سمجھوتہ کر لیتا ہے کہ آنے والی نسلوں کی ذمےداری بھی بہت بڑی ہے، پھر بہتر طرز زندگی اور اچھے ماحول کی بھی عادتیں بہت جلدی پڑ جاتی ہیں چاہے اسکے پیچھے بے انتہا محنت ہی کیوں نہ ہو ۔
اپنا گھر تو یہیں ہے۔پردیسی دل بھی مضبوط کر لیتا ہے
بس جناب پردیسی کی زندگی ایسی ہی ہوتی ہے ،اپنے گھر کا سکون چاہیے تو سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں اور دل بھی مضبوط کرنا پڑتا ہے۔
کمرے کی کھڑکی سے پہلی صبح کا یہ منظر تھوڑا سا شرمندہ کر رہا ہے(ویسے ہم آسانی سے شرمندہ ہونے والوں میں سے نہیں) لیکن برابر والوں نے بھی سلیقے سے گھاس کاٹی ہوئی ہے دائیں جانب تو اکیلی ضعیف اماں رہتی ہیں ،ظاہر ہے خود تھوڑی بیک یارڈ مینٹین کیا ہے ،ماہر قسم کا لینڈ سکیپر یعنی مالی رکھا ہوا ہے یہ تراش خراش اور خوبصورتی اسی کی بدولت ہے اور یہ سب میں اسلیے نہیں کہہ رہی کہ میں کوئی کام چور ہوں اور پاکستان سے تازہ تازہ ہر گھر میں لاک ڈاؤن اور وبا کے باوجود ڈھیر سارے کام کرنے والے دیکھ کر آئی ہوں ۔حسرتیں اپنی جگہ لیکن سچ تو یہ ہے کہ وہاں کے ملازموں سے نمٹنا اب ہم پردیسیوں کے بس کی بات نہیں وہ تو بس ایسے ہی خیال آگیا تھا۔
آتے ہی ویکیوم اور ٹاکیاں تو مار دی تھیں ۔جھاڑ پونچھ بھی ضروری تھی۔بستر کی چادریں تکیے کمفرٹر سب کے کور نہ بدلتے تو سوتے کیسے اسکے نتیجے میں لانڈری کا ڈھیر منتظر ہے۔ ایک گھاس کا کھیت ہی تو اُگ آیا ہے باہر تین مہینوں میں، وہ بھی بچے صاف کر ہی لیں گے۔ابھی تو گھر کے اندر کے بھی بہت کام ہیں۔
دیکھیں زرا ! ایک کھڑکی کے منظر اور پہلی صبح نے خیالات کے گھوڑے کہاں سے کہاں تک دوڑا دیے،لیکن اگر آپ بھی میرے جیسے پردیسی ہیں تو ٹینشن مت لیجئے گا خوش رہیے یہ اُتار چڑھاؤ ، یہ چھوٹے بڑے پڑاؤ، یہ خوشی اور یاسیت اور یہ ڈھیر سارے کام ہی دراصل زندگی کا حسن ہیں۔
پردیسی کے دکھ
(Visited 1 times, 1 visits today)