میں اگر مشرق اور مغرب کا موازنہ کروں تو ایک بہت بڑا فرق یہ ہے کہ یہاں بچپن سے ہی اپنے آپ کو اور اپنے احساسات کو سمجھنے اور انکا صحیح طور پہ اظہار کرنے پہ توجہ دی جاتی ہے.
ہمارا چار سالہ بچہ جب اسکول گیا تو اس نے پہلا سبق اپنے جذبات کے بارے میں سیکھا اور پورا ہفتہ ہمیں بھی ازبر کرواتا رہا کہ ہیپی، سیڈ، اینگری اور ایکسائٹڈ کیسے ہوتے ہیں اور
It’s ok to be Angry
It’s ok to be sad
یعنی اداس یا غصّہ ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن اسکا بہتر اظہار ضروری ہے۔
پہلے عموماً جب ہم اُسکی کسی بات پہ سرزش کرتےتھے تو وہ غصّے کا اظہار کرتے ہوئے روتا ہوا اس جگہ سے بھاگ جاتا تھا ،اسکول کے دنوں کے بعد ایک بار ایسا ہوا تو وہ جھکا کے چپ ہو کے بیٹھ گیا اور ہماری حیرانی پہ اس نے کہا کہ میں سیڈ ہو رہا ہوں اور ٹیچر نے بتایا ہے کہ سیڈ ایسے ہوتے ہیں۔ہمیں ہنسی بھی آئی اور دل ہی دل میں ٹیچر کے ممنون بھی ہوئے۔
اب آئیے اُن غصّہ ور صاحب کی طرف اُن سے بات چیت کے بعد اندازہ ہوا کہ اُنہیں بیٹے سے بہت محبت ہے ،سوال کیا گیا کہ وہ اسکو کیسے دیکھنا چاہتے ہیں اُنہیں کہا بلکل شہزادوں کی طرح ،اُن سے کہا گیا پھر پہلے اُسکی ماں کو تو ملکہ بنائیں کیونکہ شہزادوں کی پرورش بھی ملکائیں کرتی ہیں، کنیز کا بیٹا تو شہزادہ نہیں ہو سکتا۔
پھر باری آئی اُن کے رویے کی اُنکے پس منظر سے پتہ چلا کہ اُنہونے اپنے والد کو والدہ پہ جسمانی تشدد کرتا دیکھا ہے جسے وہ بلکل غلط سمجھتے ہیں لیکن ساتھ ہی کیونکہ وہ جسمانی طور پہ تکلیف نہیں پہنچاتے تو زبانی طور پہ تکلیف پہنچانے کو کچھ خاص برا بھی نہیں سمجھتے کیونکہ یہ اسکے مقابلے میں کچھ خاص بات نہیں۔ یہاں پہ مسئلے کو پہچاننےکا مرحلہ ہے کیونکہ اسکو حل اسی وقت کیا جا سکتا ہے جب اسکا ادراک ہو۔ جب تک غلطی کو غلطی تسلیم نہیں کیا جائیگا اسے درست بھی نہیں کیا جا سکتا۔
یہاں یہ سوچنا بھی ضروری ہے کہ والدین کے مابین رویئے کس طرح اولاد کی زندگیوں میں غلط رویئے اپنانے اور کڑواہٹ گھولنے کا باعث ہوتے ہیں یعنی یقینا انکا بچپن گزرے عرصہ بیت چکا ہوگا لیکن اپنے ماحول کے زیرِ اثر اپنائی گئی غلط عادتوں نے انکی پوری فیملی کو متاثر کیا اور یقیناً اُنکے بچے نے بھی ضرور اُن سے کچھ نہ کچھ سیکھا ہوگا یوں ایک آدمی کے منفی رویئے کے اثرات تیسری نسل تک پہنچے۔
اُن سے سوال ہوا کہ جب گاڑی چلاتے ہوئے سگنل یلو ہو جائے تو وہ بریک لگاتے ہیں یا ایکسلیٹر پہ پاؤں رکھ دیتے ہیں۔اُنہونے جواب دیا کہ وہ ایکسلیٹر پہ پاؤں رکھ دیتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ عقل مند آدمی ایسی صورتحال میں بریک لگاتا ہے تاکہ احتیاط کر کے ممکنہ حادثے سے بچا جا سکے۔ اب آئیے جھگڑا اور غصّے کی صورتِ حال کی طرف۔ جب آپ کو لگے کہ اب آپ یلو زون سے نکل کر ریڈ زون میں داخل ہو رہے ہیں وہیں آپکو اپنی کیفیت سمجھنے، رک جانے اور خود کو پہلے گرین زون میں لانے کی ضرورت ہے تاکہ آپ اپنی ذات کا کنٹرول نہ کھو بیٹھیں۔ ایسے میں آپکو اس جگہ سے کچھ دیر کے لیے دوری اختیار کرنے کی ضرورت ہے ،وہاں سے دور ہو جائیں اور اپنے ہیپی اوینو والا کام کریں یعنی جو کام آپکو خوشی دیتا ہو اور یہ بھی نہ ہو سکے تو کچھ دیر کے لیے واک پہ نکل جائیں ۔پندرہ بیس منٹ بعد آپ اپنی ذہنی کیفیت میں بہتری محسوس کرینگے اور کیونکہ آپ اب اپنے گرین زون میں ہونگے تو اپنی بات نرمی اور بہتر طریقے سے کر سکیں گے۔
اس چھوٹی سے پریکٹس سے اُنکی زندگی اور اطراف کے رشتوں میں بہت بڑا بدلاؤ آیا جسکا اعتراف اُنکی خاتون خانہ نے بھی کیا اور شکر گزار ہوئیں۔
اپنی ذات کا ادراک ،خود کو سمجھنا اور اپنی کیفیات کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینا سمجھداری ہے۔ اگر کسی اور کی وجہ سے ہم اپنی ذات کا کنٹرول کھو بیٹھتے ہیں تو یہ دراصل ہماری اپنی کمزوری ہے جس پر چند بنیادی باتیں اپنا کے نا صرف قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ اپنے اطراف کا ماحول بھی پرسکون بنایا جا سکتا ہے ۔
اسکے ساتھ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ذہنی صحت کے متعلق مدد لینے والے کو ہؤا یا تماشا بنانے یا اسکے بارے میں منفی سوچنے کے بجائے اُسکی حوصلہ افزائی کی جائے اور اسے ایک عام علاج کی طرح سمجھا جائے تاکہ لوگ
اسے اپنانے میں جھجھک محسوس نہ کریں اور ذہنی طور پہ ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل آسان کی جا سکے ۔
دعا ہے کہ ہم سب اپنے اپنے گرین زون کو پہچانیں اور ہمیشہ خوش اور مطمئن رہیں ۔
*
اگلے کچھ سیمینار گرین زون ریلیشن شپس، گرین زون خاندان، گرین زون اسکولز کے بارے میں ہوں ہے جن میں اگر آپ شریک ہونا چاہیں تو اس ایڈریس پہ ای میل بھیج سکتے ہیں
welcome@drsohail.com
میری کوشش ہوگی کہ میں جب بھی اسمیں شامل ہوں تحریر کے ذریعے آپ تک اسکی آگاہی ضرور پہنچائی جائے
*
آپ کو تحریر کا یہ سلسلہ کیسا لگا اپنے کمنٹ کے ذریعے بتانا مت بھولئے گا۔
*
اس سلسلے کی پچھلی تحریریں پڑھنے کے لیے یہ لنک چیک کریں۔
*
پہلا حصہ۔
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=5575425802483047&substory_index=0&id=431611513531194
*
دوسرا حصہ
https://m.facebook.com/KhayalbyQASaba/photos/a.513081922050819/5579819815376979/?type=3&source=48
*
تیسرا حصہ
https://m.facebook.com/KhayalbyQASaba/photos/a.513081922050819/
*
پوسٹ کو شیئر کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک آگاہی پہنچائی جا سکے
.
*
قرۃ العین صبا
ذہنی صحت اور گرین زون فلسفہ (آخری حصہ)
(Visited 1 times, 1 visits today)