مائیں بے سری نہیں ہوتیں

کچھ دن قبل میں ایک تقریب میں شریک تھی کھانے کا وقت ہوا تو میرا دو سالہ بیٹا میرے ساتھ آ بیٹھا اور کھانا کھاتے ہوئے باتیں کرنے لگا ،قریب بیٹھی ہوئی ایک اجنبی خاتون نے انتہائی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ایک دم کہا “ارے یہ تو بول رہا ہے” ان کا انداز ایسا تھا جیسے بچے کا بولنا کوئی انوکھا کام ہو میں اپنی مسکراہٹ نہ چھپا سکی “جی ہاں ماشاءاللہ” میں نے جواب دیا، کتنا بڑا ہے؟ انکا دوسرا سوال تھا تقریبا دو سال دو مہینے, وہ مزید گویا ہوئی میرا بیٹا بھی اتنا ہی بڑا ہے لیکن وہ بمشکل ایک دو لفظ بولتا ہے اسی ٹیبل پر بیٹھی ہوئی تیسری خاتون بھی گفتگو میں شریک ہوگیں میرا بیٹا تقریبا ڈھائی سال کا ہے لیکن وہ بھی چند ہی الفاظ بولتا ہے لیکن فکر نہیں کریں تھوڑے دن میں بولنے لگے گا کچھ بچے دیر سے بھی بولتے ہیں، پہلی خاتون دوبارہ گویا ہوئیں لیکن ڈاکٹر نے اس کو اسپیچ تھراپی کے لئے ریفر کیا ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ اس عمر تک بچے کو مکمل جملے بولنا شروع کر دینا چاہیں ، میں خاموشی سے ان دونوں کی گفتگو سنتی رہی کیونکہ بچوں کے نہ بولنے کی وجہ میں جان چکی تھی،ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا ،آجکل بچے کے بولنے پہ یہ حیرت اور اسی قسم کے سوالات کا سامنا میں تقریبا ہر دوسری گیدرنگ میں کر رہی تھی اور اب تو مجھے بھی محسوس ہونے لگا تھا جیسے یہ واقعی کوئی انوکھا کام ہو . اسکے بعد میں نے ان سے وہی دو سوال کیے جو میں ہر اس آدمی سے کرتی ہوں جو اپنے بچے کے نہ بولنے کی شکایت کرتا ہے اور عموما ان سوالوں کے جواب مسلہ اور حل دونوں ہی سامنے لے آتے ہیں .

ٹیکنالوجی نے جہاں انسان کو بہت زبردست کر دیا ہے وہیں کہیں کہیں بہت عجیب طریقے سے زیر دست بھی لے آئ ہے، آج کا المیہ یہ ہے کہ سیل فون ہاتھ میں لئے مستقل ٹیکسٹ میسجنگ کرتے ہوئے ہم انسان بات کرنا آھستہ آھستہ بھولتے جا رہے ہیں اور ہمارے آس پاس تنہائی، اداسی اور اکیلا پن بڑھتا جا رہا ہے بڑوں کے لئے جہاں یہ مسئلہ اپنی جگہ گھمبیر ہے وہیں بچوں کے لئے بھی یہ کسی چیلنج سے کم نہیں،آج کے کسی ٹین ایج بچے کے لئے بھی اعتماد سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے مقابل کو اپنی بات سمجھانا ایک کڑا عمل ہے، لیکن اس کے سب سے زیاد مضر اثرات ان بچوں پہ پڑ رہے ہیں جو بولنے کی عمر کو پہنچنے کے باوجود اپنی بات سمجھانے سے قاصر ہیں. ذرا تصور کیجیے کہ آپ اپنی بات سمجھانا چاہ رہے ہو اور دوسرا سمجھ نہیں پا رہا ہو تو آپ کا ردعمل کیا ہو گا یقینا آپ رویں گے،چیخیں گے ، غصہ کریں گے، ضد کریں گے، پیر پٹخیں گے یا ہر اس طرح سے اپنی بات کا اظہار کرنے کی کوشش کریں گے جو آپ کے بس میں ہے یہی وجہ ہے کہ جب بچے نہ بولنے یا دیر سے بولنے کی مشکل کا شکار ہوں تو ان میں ٹوڈلر ٹانٹرم ان بچوں کی نسبت زیادہ نظر آتے ہیں جو بول کے اپنی بات سمجھا سکتے ہیں .

ایک دہائی پہلے تک اسپیچ تھراپی کے لیے عموما ان بچوں کو بھیجا جاتا تھا جو یا تو تتلاہٹ کا شکار ہوتے تھے یا کسی اور وجہ سے ان کی زبان صاف نہیں ہوتی تھی ،نہ بولنے کا مسلہ شاز و نادر سننے میں آتا تھا، لیکن آجکل کہیں پہ بھی لوگ اکٹھے مل کر بیٹھے ہیں تو ہر چوتھے پر پانچویں میں بچے کا مسئلہ اسپیچ ڈیلے یعنی دیر سے بولنا یا بالکل بھی نہ بولنا سننے میں آتا ہے سوشل میڈیا کے کسی پلیٹ فارم پر چلے جائیں تو وہاں پہ بھی یہ کوئی نہ کوئی خاتون یہ مسئلہ لکھے پریشان ہوتی ہیں کہ ان کے بچے کو ڈاکٹر نے اسپی تھراپی کے لئے ریفر کردیا.

یہ تو ہوا مسئلہ اب آئیے ان دو سوالوں کی طرف جو میں شکایت کرنے والوں سے پوچھتی ہوں اور وہی میں نے ان دونوں خواتین سے بھی پوچھے پہلا سوال یہ ہے کہ ١- کیا آپ اپنے بچے سے باتیں کرتی ہیں؟ اس سوال پر اکثر لوگ گڑ بڑا جاتے ہیں، ان کے جواب بھی اسی طرح کے تھے جیسے “بات کرنا مطلب؟ وہ تذبذب کا شکار تھیں ، بات تو کرتے ہیں مگر کیا بات کریں؟ میں نے پوچھا کیا آپ سے اپنے بچے کو نظمیں اور کہانیاں سناتی ہیں یا اسکے ساتھ کھیلتے ہوے باتیں کرتی ہیں ؟ کہیں آتے جاتے کھاتے پیتے اس سےچیزوں کے بارے میں بات چیت کرتی ہیں؟ اس بات پر عموما کوئی بھی صاف جواب نہیں دے پاتا کیونکہ ان سب چیزوں کی جگہ ٹی وی ، ٹیبلٹ اور سیل فون نے لے لی ہے،والدین کے لئے بھی موبائل سے دھیان ہٹانا مشکل کام ہے اور بچوں کو بھی بدقسمتی سے تین چار مہینے کی عمر سے یا کبھی کبھی اس سے پہلے ہی گیجٹ کے ساتھ بٹھا دیا جاتا ہے اب بچےکے پاس ماں باپ، بہن بھائی، دادا دادی اور ان کی باتوں کا متبادل اسکرین پر مستقل چلنے والے کارٹون اور ایک جیسی نظمیں اور گانے ہیں جو کہ اس کو مصروف تو رکھتےہیں اور ایک حد تک معلومات بھی دیتے ہیں لیکن بات کرنے کی ترغیب نہیں دیتے. جب والدین یا کوئی اور رشتہ دار بچے سے خود بات کرتا ہے،تو چہرے کے تاثرات اور آئ کانٹکٹ کے ذریعے اسکو جواب دینے یا بولنے میں مدد دیتا اور اکساتا ہے اور یوں دو طرفہ بات چیت شروع ہوتی ہے لیکن جب بچہ ایک بہت ابتدائی عمر سے صرف اور صرف ایک جیسی مشینی چیزیں دیکھنے او سننے کا عادی ہو جاتا ہے تو اس کو بولنے کی ضرورت محسوس ہی نہیں ہوتی یا پھر بولنے کا خیال ہی نہیں آتا .

میرا دوسرا سوال یہ ہوتا ہے کہ آپ کے بچے کا اسکرین ٹائم کتنا ہے اس پہ خاتون نے جواب دیا “یہ تو پوچھیں ہی نہیں وہ تو سارا وقت ہی ہے ، دوسری نے بھی اسی سے ملتا جلتا جواب دیا کیونکہ اسکرینیں سیل فون کی شکل میں ان دونوں بچوں کے ہاتھوں میں اس وقت بھی موجود تھیں جب کہ انکو اس پاس کے ماحول ،لوگوں اور اپنے ہم عمر بچوں اور کھانے سے لطف اندوز ہونا چاہیے تھا
. یہ دور حاضر کا ایک ایسا چیلنج ہے جس کا شکار ہم سب ہی انسان ہیں،چاہتے نہ چاہتے ہے بھی کسی نہ کسی بہانے ہمیں ہر تھوڑی دیر میں اپنی اپنی اسکرینوں میں جھانکنے کی بیماری لاحق ہے لیکن اس کا واحد حل یہی ہے کہ اپنے اوپر جبر کرتے ہوئے اپنے بچوں کی بہتری کے لئے ان ڈیوائسز کے کنٹرول سے نکل کر خود ان کو کنٹرول کیا جائے .

بدقسمتی سے آج کے دور کے ماں باپ تو اپنی جگہ لیکن ہمارے بزرگ ,دادا دادی اور نانا نانی بھی سیل فون میں یوں گم ہوئے ہیں کہ انہیں اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کی معصوم باتوں سے زیادہ فیس بک کی پوسٹ اور لائک اچھی لگتی ہیں یا کینڈی کرش میں ایک ساعت ٹوٹتی اور پھٹتی ہوئ بہت ساری ٹافیاں بے انتہا مسرت دیتی ہیں اور کوئی شک نہیں کہ یہ سب کرنے میں بہت مزہ آتا ہے کچھ سال پہلے تک میرے اپنے فون میں بھی کینڈی کرش انسٹال تھا پھر ایک دن یوں ہوا کہ وہ غلطی سے ڈیلیٹ ہو گیا اس کے بعد سے راوی چین ہی چین لکھتا ہے, اس گیم کا ذکر میں نے اس لیے کیا کہ کچھ عرصہ قبل ہم کسی سے ملنے گئے ان کا پوتا تقریبا پانچ سال کا تھا ،توجہ حاصل کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی بات بیچ میں کرنے کی کوشش کرے جا رہا تھا. جب اس نے دادی کو متوجہ نہ پایا تو آخر میں بلند آواز سے کہا میں ٹیبلٹ سے آپکا کینڈی کرش ڈیلیٹ کر رہا ہوں.. اور دادی کے تو گویا ہاتھ پاؤں پھول گئے سب باتیں چھوڑ چھاڑ پچکار پچکار کے خوشامد کے بعد اسکو ٹیبلٹ رکھنے پہ آمادہ کیا ،اب بھی خیال آتا ہے تو خوب ہنسی آتی ہے انکے روی سے ظاہر تھا کہ غالبا گیم کے کسی ہائی لیول پہ پہنچ چکی ہیں .

اسکرین کے استعمال کا مکمل بین ممکن نہیں لیکن وقت کا تعین کرنا اور اس پہ سختی سے عمل درامد کرنا بے حد ضروری ہے یعنی دن میں بچے کو ایک سے دو گھنٹے سے زیادہ دیر کے لئے اسکرین نہ دی جائے ، ٹیبلٹ اور سیل فون سے کچھ بہتر ٹی وی کی اسکرین ہے جس پہ ایک مناسب فاصلے سے بیٹھ کر دیکھا جا سکتا ہے( اگرچے بچپن میں اس پہ بھی ٹوکا جاتا تھا کہ ٹی وی دیکھنے سے آنکھیں کمزور ہوتی ہیں )
بچے کے ابتدائی سال اسکی دماغی نشو نما یا برین ڈویلپمنٹ کے سال ہیں ،ایک سے چار سال سیکھنے کی بنیادی عمر ہے ،بچے ان چند سالوں میں زبان ،بیان ،چیزیں پکڑنا ،خود سے کھانا پینا اور لوگوں سے گھلنا ملنا سیکھنے کے علاوہ اپنے اطراف کی ہر چیز کا ناصرف مشاہدہ کرتے ہیں بلکے اسکی نقل کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں جو انکی آئندہ زندگی کی بنیاد بنتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ اکثر ممالک میں اسکول کی ابتدا چار اور پانچ سال کی عمر سے ہوتی ہے ، ایسے میں انکو صرف ایک اسکرین تک محدود کر دینا ان سے دشمنی کے مترادف ہے اور یہ بات بھ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کے اسکرین کا مستقل استعمال دماغ پہ منفی اثرات کا باعث ہے جسکا نتیجہ دیگر طبی بیماریوں کے علاوہ ،بےچینی ،غصّہ،چڑچڑاپن اور ڈپریشن کی صورت میں نکلتا ہے .
بلا شبہ بچے کے ساتھ اپنی دلچسپیاں چھوڑ کے دوسری ذمہ داریاں نبھاتے ہوے پورے دن لگنا ذہنی اور جسمانی طور پہ تھکا دینے والا کام ہے ،لیکن یہی محنت کا وقت ہے، زندگی ریورس میں نہیں چلنی ،یہ سال دوبارہ نہیں آنے،کچھ وقت بعد وہ اپنی خوشبو اور لمس کے ساتھ آپکی گود میں دوبارہ نہیں سماے گا ،،بچے کو یہ عمر کا یہ چھوٹا سا حصّہ آپکے ساتھ گزار کے اسکول اور پڑھائیوں کی دنیا میں کھو جانا ہے.اسکو بھرپور وقت دیجئے،اسکے ساتھ ڈھیروں باتیں کیجئے،اسکی معصوم بےتکی گفتگو شوق اور دلچسپی سے سنئے تاکہ اس کو آپ کی توجہ محسوس ہو اور وہ بات کرنے میں خوشی محسوس کرے،اسکرین بند کر کے اسکو خود سے کہانیاں سنایں، اسکے ساتھ مل کے نظمیں اور لوریاں گایں کیونکے والدین سے زیادہ دلچسپ کچھ بھی نہیں ہوتا اور مائیں کبھی بے سری نہیں ہوتیں .

خیال ——–قرة العین صبا

(Visited 1 times, 1 visits today)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *