ایک وضاحت

تحریر: قرۃ العین صبا

کل کی تحریر کے بعد جہاں بہُت سارے مثبت پیغامات موصول ہوئے وہیں ایک خاتون کا اداس میسج بھی ملا جس میں کہا گیا کہ میری تحریر سے اُن کی خاصی دل آزاری بھی ہوئی اور وہ بہت روئیں بھی اور یہ کہ یہ تحریر اُن تمام ماؤں کے لیے دل آزاری کا سبب ہوگی جن کے ہاں اسپیشل بچے موجود ہیں اور کسی میڈیکل وجہ کے باعث اسکرین کا استعمال نہ کرنے کے باوجود بھی بول نہیں پاتے، یہ بھی کہا گیا کہ لکھنے سے پہلے تھوڑی ریسرچ کر لیا کریں کہ کبھی وہ والدین جو بچے کو اسکرین سے دور رکھتے ہیں اُنکے بچے بھی کچھ نیورو ڈس آرڈر اور دوسری وجوہات کی بنا پر نہیں بول پاتے۔
ہم کچھ غلطاں پیچاں اور نالاں اس سوچ میں پڑ گئے کہ آخر ایسی کیا بات سرزد ہوئی ۔
اگرچہ بات وضاحت طلب نہیں لیکن کیونکہ میرے پڑھنے والوں میں مختلف عمروں،مختلف سمجھ بوجھ رکھنے والوں اور مختلف مشکلات سے نبرد آزما لوگ شامل ہیں اسلیے سوچا وضاحت کر دوں۔
سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیجئے کہ جس طرح ایک ہی مرض کی وجوہات اور دوا ہر مریض کے لیے مختلف ہوتی ہے اسی طرح ہر تحریر ہر ایک کے لیے نہیں ہوتی۔
اسکی مثال ایسی ہی ہے کہ جیسے کسی متوقع شوگر کے مریض کو چینی کے نقصانات گنوائے جائیں اور کوئی دوسرا شوگر کا مریض کہے کہ مجھے تو پیدائشی شوگر ہے اسلیے آپ غلط ہیں، یا آنکھوں کا باریک بینی سے استعمال کرنے والے کو کہا جائے کہ تمہاری نظر کمزور ہو سکتی ہے اور کوئی دوسرا کہے کہ میری نظر تو زیابیطس کی وجہ سے کمزور ہوئی اسلیے آپ اپنی ریسرچ کریں۔
کل کی تحریر خالصتاً ابرار الحق کے بیان پہ ہوتی تنقید کے تناظر میں شئر کی گئی اور اسکا بنیادی فوکس ہی بچوں میں اسکرین کا “بے جا” استعمال اور اُسکی وجہ سے آنے والا اسپیچ ڈلے تھا اور یہ میرے آنکھوں دیکھیے کیسز ہیں، ساتھ ہی کچھ دوستوں نے اپنے تجربات بھی شئر کیے جس کے لیے بہُت شکریہ۔
بچوں میں اسکرین کا بے تحاشا استعمال مجھ سمیت بہُت سارے لوگوں کا مسئلہ ہے جو ایک دہائی قبل نہیں تھا اور میرے دونوں بڑے بچے کافی عرصہ اس سے محفوظ رہے، آس پاس گیجٹس ہوتے ہوئے تیسرے کو ان سے بچانا ایک مستقل جد و جہد ہے ،رہی سہی کسر کرونا کے باعث لاک ڈاؤن اور فراغت نے پوری کر دی ہے۔
جہاں تک بات آگاہی کی ہے “ہم خیال” کی دو اقساط ہم دو مختلف ٹیچرز کے ساتھ بھی کر چُکے ہیں جو اسپیشل بچوں اور آٹزم کے متعلق تھا۔
ہر والدین اپنے بچے کو سب سے زیادہ سمجھتے ہیں، اگر آپ کا بچہ کسی قسم کہ بھی طرح سے خاص ہے، آٹزم ، اے ڈی ایچ ڈی یا کسی بھی طرح کے نیورو ڈس آرڈر میں مبتلا ہونے کی وجہ سے نہیں بول پا رہا تو یقیناً اس تحریر کا تعلق آپ سے نہیں تھا اسلیے دل آزاری اور رونے کا تحریر سے کوئی سلسلہ نہیں بنتا۔
وہ والدین جو اپنے بچوں کی کسی بھی قسم کی بیماری یا اسپیشل نیڈ کی جد و جہد میں مبتلا ہیں، میں آپ کا دکھ تو شاید نہیں سمجھ سکتی لیکن اندازہ کر سکتی ہوں کہ اولاد کی طرف سے کسی بھی قسم کی پریشانی دیکھنا ایک کڑی آزمائش ہے، آپ لوگ عظیم ہیں اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی پریشانی کو دور کرے اور آپ کے بچوں کے لیے بہتری فرمائے،آمین۔
یقیناً بیماری اور پریشانی آدمی کو کبھی کبھی خاصا تلخ کر دیتی ہے لیکن اسکے زیر اثر لکھنے والے کو الزام دینا یا کھچائ کرنا مناسب نہیں کہ بے جا تنقید سب کو ہی تکلیف دیتی ہے اور لکھنے کا اولین مقصد ہی آگاہی پھیلانا ہوتا ہے پھر بھی دل آزاری کے لیے معذرت۔
خوش رہیں

قرۃ العین صبا

(Visited 1 times, 1 visits today)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *