انگریزی کا لفظ ہے، جب میں نے اسے پہلی بار پڑھا تھا تو اسکی مثال ٹی وی کی ایک خبر کے زریعے دی گئی کہ لوگوں کے گھر کسی قدرتی آفت کی وجہ سے تباہ ہو گئے، اُنہیں حکومت کی مدد سے دوسری جگہ منتقل کیا گیا تو اُن میں سے کچھ نےیہ خواہش ظاہر کی کہ ہم اپنے گھروں کو کلوژر کے لیے ایک نظر دیکھنا چاہتے ہیں۔
اُردو میں اسکے لیے بہت سے الفاظ ہیں جیسے خاتمہ، بندش، اختتام لیکن میرا خیال ہے کہ اس لفظ سے جُڑے احساسات انگریزی کے کلوژر میں زیادہ ہیں۔
اسے فائنل گڈ بائے بھی کہا جا سکتا ہے, الوداعی ملاقات ،آخری خدا حافظ ، ہمیشہ کی رخصتی جس کے بعد سکون اور صبر آ جاتا ہے اور آدمی حقیقت قبول کر لیتا ہے۔
بد قسمتی سے پردیس میں رہنے والوں کے پاس اپنوں کے بچھڑ جانے کے متعلق کوئی بھی خبر آئے تو اُنکے پاس کلوژر کا آپشن نہیں ہوتا ۔
لاکھ فون کالز ہو جائیں، وائس میسیجز آجائیں، منٹ منٹ کی خبر مل رہی ہو ، دور رہنے والوں کو فائنل گڈ بائے یا الوداعی ملاقات کا سکون نہیں مل پاتا۔ اُنکے خیالات اور سوچیں گزری یادوں اور بیتی باتوں میں کسی بیچین روح کی طرح بھٹکتی ہی رہتی ہیں کیونکہ پوری کہانی میں سے الوداعی منظر مسنگ ہوتا ہے۔
تھوڑا دھیان بٹا اور پھر دوبارہ کوئی یاد دریچے سے جھانک کے چلی گئی اب بھاگ کے بھری آنکھوں سے لاکھ باہر جھانکو گلی میں وہی جامد سناٹا ہے۔
یہ سنّاٹے پردیسیوں کے قسمت ہوتے ہیں جسے اُنہونے اپنوں سے دور جاتے وقت قبول کیا ہوتا ہے لیکن بس دل کا کیا کریں جو سالوں گزر جانے کے بعد بھی اسی پرانی گلی، بچپن کے گھر کی دیواروں سے لپٹی بیلوں اور رشتوں کی خوشبووں میں ہی اٹکا رہتا ہے ۔
یہ ہجرت کے تحفے ہیں۔ کسی رشتے کے اچانک جانے کا وقت ہو جائے تو سب حق دق دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ زندگی کا ایک باب بند ہوگیا لیکن کلوژر تو ہوا ہی نہیں۔
اسی کیفیت سے آجکل ہمارے خاندان والے بھی گزر رہے ہیں۔ فقط چند دن میں میرے جیٹھ اور اکمل کے ترتیب سے دوسرے نمبر کے بڑے بھائی کرونا اور دوسری بیماریوں کی زد میں آ کے چل بسے۔
ماشاءاللہ جب خاندان بڑے ہوں تو غمی اور خوشی
دونوں ہی احساسات بھرپور ہوتےہیں۔ اکمل اور اُنکے بڑے بہن بھائیوں میں ڈیڑھ دہائی سے زیادہ کا فرق ہے,،جب عمر میں اتنا فرق ہو تو بھائیوں کے رشتے میں والد کا عکس آ جاتا ہے۔ بھرے پرے خاندان کی جد و جہد بچپن سے بڑے بہن بھائیوں کے حصے میں آتی ہے جس کا قرض چھوٹے ہمیشہ محسوس کرتے ہیں اور محبت پہ احترام غالب رہتا ہے۔
اُنہیں گھر میں “چھوٹے بھائی” کا لقب ملا,بچوں کے وہ بابا جانی تھے۔ہماری شادی کے وقت تک میرے ساس سسر دونوں وفات پا چُکے تھے اور بہن بھائیوں میں صرف اکمل غیر شادی شدہ تھے۔ ایسے میں اکثر چھوٹے بہن بھائیوں کی شادی مسئلہ بن جاتی ہے لیکن ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہماری شادی میں چاہت اور اہتمام دونوں نمایاں تھے جس میں تمام بہن بھائیوں کا ہاتھ تھا۔
شادی کا حال ایک الگ باب ہے ،اسکو کسی اور موقع پر قلمبند کریں گے لیکن شادی کے دِنوں میں رشتے میں جڑنے والے خاندان چھوٹی چھوٹی باتوں سے گھر کے ماحول اور طور طریقوں کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں پتہ چلا کہ انکے گھر میں احترام اور رکھ رکھاؤ بہت زیادہ ہے۔جب شادی کے جوڑوں کے لیے گھر والوں نے اکمل کو پیسوں کا لفافہ دیا تو اُنہونے اُسے لے کے فوراً چھوٹے بھائی کے ہاتھ پہ رکھ دیا کہ اسوقت پاکستان میں وہی بڑے تھے ۔
سچ کہوں تو اسوقت پڑھائی سے بھی پوری جان نہیں چھوٹی تھی ،ہم تو اپنے گھر کے چھوٹے ،ضد اور فرمائشیں منوانے والے تھے اور کوئی ایسا لفافہ ہمیں دیا جاتا تو ہم تو خود ہی لے کے چمپت ہو جاتے اور کہاں کسی ایسے گھر کی ساتویں بہو بننے جا رہے تھے ,ابھی بہت کچھ سیکھنا تھا اور پچھلے اٹھارہ سال میں سیکھا بھی اور اب بھی سیکھ رہے ہیں۔
اکثر لڑکیاں بھاری ڈگریاں بھی لے لیتی ہیں اور بہت سی صلاحیتیوں کی بھی مالک ہوتی ہیں لیکن بدقسمتی سے سسرال میں اکثر نہ اُنکی صلاحیتوں کی پذیرائی کی جاتی ہے اور نہ حوصلہ افزائی۔کچھ لوگ دل میں چاہے معترف بھی ہوں لیکن زبان سے اظہار نہیں کرتے ۔
چھوٹے بھائی کی یہ بات مجھے اچھی لگتی تھی کہ بات پڑھائی کی ہو، ہمارے پکائے ہوئے کھانوں کی، یا لکھنے لکھانے کی اُنہونے بہت سارے مقامات پہ ہماری بھرپور حوصلہ افزائی کی۔کینیڈا میں ہماری پہلی عید آئی تو پاکستان سے عیدی بھیجی اور وجہ یہ سنی کہ اس نے ہمیں یہاں بہت اچھے اچھے کھانے پکا کے کھلائے تھے۔ بلاگ پہ تعریف بھی کرتے تھے اور اکثر تبصرے اور شیئرنگ بھی ہوتی تھی۔
وہ اور بھابی دو بار کینیڈا آئے
یحییٰ کی پیدائش کے وقت بھی وہ لوگ ہمارے ساتھ رہے اور کینیڈا میں بہت اچھا وقت گزرا۔
دوسری بار ۲۰۱۸ میں وہ آئے تو یہاں شادی میں شریک ہوئے، اکمل کے تایا زاد بھائی کے گھر شادی تھی اور اُنہونے ہم سے بیٹے کا سہرا لکھنے اور تقریب میں پڑھنے کی فرمائش کی تھی۔ چھوٹے بھائی کو بہت پسند آیا۔ پاکستان میں جب ہمارے مشترکہ کزن علی کی شادی ہوئی تو انکا بھی سہرا لکھا گیا۔ چھوٹے بھائی کا فون آیا کہ اسکو اپنی آواز میں ریکارڈ کر کے بھیجو ہم شادی میں سنائیں گے۔
ہمیں تھوڑا عجیب لگ رہا تھا کیونکہ کینیڈا کی شادیوں میں کلچر ہے کہ دولہا دلہن کے گھر والے اپنی نیک خواہشات
کا اظہار کرتے ہیں اور مہمان بھی خاموشی سے بیٹھ کے سُنتے ہیں لیکن پاکستان کی شادیوں کی گہما گہمی اور شور و غو غاں میں کون یوں ہماری شاعری سنے گا لیکن اُن کی خواہش پہ بھیج دیا اور اُنہونے نے خود بہت اہتمام سے لگوایا بھی ،یوں وہاں موجود نہ ہوتے ہوئے بھی اُنہونے ہماری نمائندگی کی۔
اپنے گھر والے تو اکثر ہی ساتھ کھڑے ہوتے ہیں لیکن سسرال میں یوں پذیرائی ملے تو اچھا لگتا ہے۔
۲۰۱۸ میں اکمل کو جاب کے سلسلے میں نیو جرسی جانا پڑا، وہ ایک مشکل وقت تھا، یہ جمعے کی شام کو آفس سے اٹھتے اور سات گھنٹے میں مسی ساگا پہنچتے اور پھر اتوار کی رات کو دو تین بجے نکلتے اور سیدھا آفس میں لینڈ کرتے، اِدھر تینوں بچے میرے ساتھ۔ اُن دنوں یہ طے ہوا کہ سب مل کے نیو جرسی چلیں۔ اسکول ختم ہونے میں ہفتہ باقی تھا، میری یوں نکلنے کی ہمت نہیں ہوئی، تینوں بچے اور دو سال کا یحییٰ، سب کی گاڑیاں ساتھ بھی ہوں تو میاں کے بغیر اتنے لمبے سفر میں آگے پیچھے ہونے کا خدشہ ہوتا ہے اور پھر چھوٹے بچے کے ساتھ جانے کتنی بار رکنا پڑے ،آخر یہ طے ہوا کہ بچوں کی چھٹی کروا کے ہم اکمل کے ساتھ اسی ہفتے چلے جائیں باقی سب چار دن بعد آجائینگے۔ امی بھی اُن دنوں ادھر ہی تھیں۔ انکی فلائٹ تھی، اُنہیں ایئرپورٹ چھوڑا اور جلدی جلدی سامان سمیٹ کے روانہ ہوئے۔
راستے میں چھوٹے بھائی کا فون آ گیا “تم ملے بغیر چلے گئے” وہ تھوڑا ناراض تھے۔ اکمل نے سنبھالنے کی کوشش کی ،بھائی آپ لوگ آ تو رہے ہیں اور ایک دن میں نکلنا تھا ۔اب صورتِ حال یہ کہ بچے سن رہے ہیں بابا جانی ابّا جی کی کلاس لے رہے ہیں اور ابّا گھگیا رہے ہیں، سچ ہے کہ کبھی کبھی احترام میں اپنا مدعا بیان کرنا مشکل بھی ہو جاتا ہے لیکن خاندان میں بڑے چھوٹے کا یہ لحاظ بچوں کی تربیت کا بھی سامان ہوتا ہے ۔
قِصّہ مختصر وہ سفر بھی یاد گار رہا ،راستے میں اتنی بارش ملی کہ ہائی وے پہ شیشے سے آگے کچھ دکھائی نہیں دے رہا ،بڑی مشکل سے فجر کے وقت نیو جرسی پہنچے ۔پھر ایک دو دن مہمانوں کے آنے کی تیاریاں کیں۔
مغرب کے وقت سب کی آمد متوقع تھی، کھانا تیار کر کے انتظار شروع ہوا۔ مغرب پھر عشاء ہوئی ،رات کے بارہ بھی بج گئے پھر کوئی تین بجے کے قریب سب تھکے ہارے پہنچے، معلوم ہوا کہ کچھ راستہ بھٹک گئے ،کچھ گاڑیاں آگے پیچھے ہو گئیں، میں نے دل ہی دل میں شکر بجا لایا۔ چھوٹے بھائی آتے ہی جو اکمل سے ملے تو پہلا جملہ اُن کے منہ سے یہ نکلا
“اندھیرے میں اتنا لمبا سفر کیسےکرتا ہے بھائی ،تُجھے اکیلے ڈر نہیں لگتا “؟
لہجے میں اپنے چھوٹے بھائی کے لیے محبت، تاسف، فکر،پریشانی، انس سب کچھ تھا۔
ہم سب مسکرا دیے۔
یہ رشتے دھوپ چھاؤں ہوتے ہیں، ،پنپنے کے لیے وقت مانگتے ہیں، بہت ساری چیزوں کا اندازہ تجربات سے ہوتا ہے ۔
سب کی دعائیں تھیں خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اگلے مہینے ہی واپس مسی ساگا کہ آفس میں ٹرانسفر ہو گیا ، سب لوگ بہت خوش ہوئے۔ہم نے بھی گاڑی میں سامان بھرا کچھ وہیں چھوڑا اور گھر واپس سدھارے۔
ہماری واپسی پہ چھوٹے بھائی نے بار بی کیو کی پکنک رکھی، مل کے گروسری کی گئی ،اکمل کی اس دن سالگرہ بھی تھی وہیں کیک بھی کاٹا گیا، وہ شام یاد گار رہی۔
آج بھی اکمل کی سالگرہ ہے ۔بھائی کے انتقال کو تین دن گزرے ہیں کیا منائیں اور کیا مبارکباد دیں سوچا کچھ یادوں کو دہرا لیتے ہیں۔
سنا ہے جب زمین پہ کسی کا ذکر خیر کیا جاتا ہے تو آسمان پہ بھی فرشتے اُسکا ذِکر خیر کرتے ہیں۔
یادیں تو بہت ساری ہیں اور دراصل ہماری زندگی بس یادوں کا ہی مجموعہ ہوتی ہے، وہ بھی جو ہم بھول جانا چاہیے ہیں، وہ جو ہم سنبھال سنبھال کے خزانے کی طرح رکھتے ہیں اور وہ بھی جو ہم پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔
سو کوشش کریں کہ اپنے پیچھے اچھی یادیں چھوڑ جائیں۔
ہم پاکستان سے واپسی کے آخری دنوں میں اُنہی کے گھر مقیم تھے اور اُن لوگوں نے ہماری ضرورتوں کا بھرپور خیال رکھا۔ آخری ملاقات بھی ائر پورٹ پہ ہوئی۔
چھوٹے بھائی ہم سب آپ کو مس کریں گے۔ آپ کے
شکووں کو بھی اور آپ کی محبت کو بھی۔
یہ یادیں ہی ہمارے لیے کلوژر ہیں۔
اللہ آپ کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے،آمین
*
ویڈیو میں ۲۰۱۸ کی عید کا کلپ ہے ،یحییٰ صاحب بابا جانی سے عیدی جمع کر کر کے اپنی دوسری تائی کو دیے جا رہے تھے اور ہر طرف ہنسی بکھری ہوئی ہے ۔ دوسرا کلپ اکمل کی سالگرہ والی پکنک کا ہے ،چھوٹے بھائی ٹانگ کی تکلیف کی وجہ سے بیٹھ کے نماز پڑھ رہے تھے اور یحییٰ اُنکی نقل کر رہے تھے۔ تصویر نیو جرسی میں فیملی گروپ کی ہے۔
چھوٹے بھائی”Closure”
(Visited 1 times, 1 visits today)