چور تے سالا پھڑیا ای نئیں

تحریر: قرۃ العین صبا

ویک اینڈ پہ ویڈیو پوسٹ کی اور خُوب سر کھپایا، کچھ سمجھے ، سراہا اور شئر بھی کیا ،انکا بہت شکریہ ،کچھ نہ سمجھے اور کچھ کبھی نہیں سمجھنے والے، چلیں خیر ہے۔
بہت سارے اور لوگوں کی طرح میں بھی سوشل میڈیا پہ اختلافی موضوعات سے اجتناب کرتی ہوں، یعنی بس اچھی اچھی باتیں کرنے کی کوشش کرتی ہوں ،جہاں نقص امن کا خدشہ ہو وہاں سے اپنی گاڑی موڑ لیتی ہوں، متنازعہ ایشوز کم ہی چھیڑتی ہوں لیکن پھر بھی کسی کسی مقام پہ دل کہتا ہے کہ چپ رہنا زیادتی ہوگی یا کیا سارا شور و غل واہ واہ اکھٹا کرنے کے لیے ہے؟ تو پھر بولنا پڑتا ہے ۔
اسی طرح سوچ کی ہانڈی کی آنچ بڑھاتے کم کرتے فیس بک پہ کودتی پھاندتی ایک انڈین انفلوئنسر کی ویڈیو سے جا ٹکرائی۔ اس ویڈیو کا حوالہ اور انٹرویؤ بی بی سی نے بھی شئر کیا تھا۔ویڈیو اور نام اسلیے نہیں شئر کر رہی کہ قابلِ اعتراض الفاظ کی وجہ سے شور و غو غاں اور اعتراضات کا خدشہ ہے جس کے نتیجے میں توجہ طلب بات دب جاتی ہے جو کہ سارے مسئلے کا لب لباب ہے ۔
ویڈیو پنجابی میں تھی ،پنجابی میری زبان نہیں لیکن سمجھ آ جاتی ہے۔
تو قصہ کچھ یوں تھا کہ ایک گھر میں چوری ہو گئی۔
لوگوں نے کہا کہ بھئی نئے تالے ڈالو اور تالے ڈالو، نئے تالے ڈالے گئے۔ پھر ایک اور گھر میں چوری ہو گئی، پھر یہی مشورہ آیا کہ اور تالے ڈال لو، نئے تالے ڈالو ،تو جی اور نئے تالے ڈل گئے ،پھر یہ ہوا کہ ایک اور چوری ہو گئی۔
یہی ہوتا رہا, تالے تو نئے ڈلتے رہے لیکن چوری پھر بھی نہیں رکی کیونکہ
“چور تے سالا پھڑیا ای نئیں”
(چور تو پکڑا ہی نہیں گیا)
تو بس بات بھی اتنی سی ہے۔ تالے چاہے جتنے لگا لو، جب تک چور نہیں پکڑتے چوری نہیں رکنی۔
وہاں نہیں جانا چاہیے ،یہ نہیں پہننا چاہیے، ایسی بات نہیں کرنی چاہیے کہ موقع ملے، یہ سب ہمارے اپنے اپنے پیمانے ہیں ورنہ وقت پڑنے پر دوپٹہ، چادر ،اسکارف ، برقع ،پردہ ،سب برابر ہو جاتے ہیں کہ چور تے سالا پھڑیا ای نئ چور تو مزے سے کھلا گھوم رہا ہے۔
جب لڑکی کو کہا جاتا ہے کہ اگنور کرو تو اسکا مطلب لڑکے کے لئے یہ ہوتا ہے کہ آپ کنٹینیو کریں یا جاری رکھیں۔ جب اسے شروع میں نہیں روکا جاتا تو وہ ساٹھ سال کی عمر کا ہو کے بھی نہیں رکتا۔
میں نے خود ایسی مثالیں دیکھی ہیں اور جنہیں بھیڑ میں موقع نہیں ملتا وہ اسکرین کے پیچھے آ بیٹھتے ہیں ایک دوست نے بتایا ،اُنکے ایک محترم برگزیدہ بزرگوار نے نیا نیا فیس بک کا اکائونٹ بنایا لیکن واقف نہ تھے کہ اُنکے کہیں اور کے کمنٹ باقی لوگ بھی دیکھ سکتے ہیں ،ہے دھڑک ہو کے ولگر قسم کی پروفائل پہ پوسٹ کی گئی تصویروں پہ عجیب عجیب کمنٹ لکھ کے مزے لینے لگے، اِدھر فیس بک ساری دنیا کو دکھا رہا ہے کہ فلاں فلاں کمنٹ آن فلاں فلاں فوٹو۔
بس بیجا بیجا ہو گئی،کر لو گل
تو بھیڑ ہو یا تنہائی یہ جو شیطانی چور ہے یہ شریف روحوں میں بھی کہیں نہ کہیں ہر ایک کے اندر چھپا بیٹھا موقع کا منتظر ہوتا ہے اور اگر موقع پہ ہی اسکا سد باب نہ کیا جائے تو لاکھ تالے لگائیں کچھ نہیں ہونے کا۔
حیا جز ایمان ہے مگر سب کے لیے ہے۔ احکامات پہ ضرور عمل کریں، احتیاط کریں، تالے ضرور لگایں لیکن چور کو بھی پکڑیں۔
ایک اور خوبصورت بات جو کہی گئی وہ یہ تھی کہ
بد تمیزی اور ہراسانی راستہ نہیں جس پہ “چلا” جاتا ہے بلکہ سیڑھیاں ہیں جن پہ “چڑھا” جاتا ہے اسلیے اگر اسکو پہلے قدم پہ نہ روکا جائے تو اگلی پیش رفت اس سے بڑھ کے اور نڈر ہو کے کی جاتی ہے اسلیے اسے پہلے قدم پہ روکنا اور اسکے خلاف آواز اٹھانا بہُت ضروری ہے۔ اگرچہ بہُت سے مقامات پہ شرم ، تماشے، جھگڑے اور بد مزگی کے خیال سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے لیکن دراصل یہ شہہ دینے کے مترادف ہے اسلیے ایسی صورت حال میں پلٹ کے ضرور خبر لیں اور اپنی بچیوں کو بھی سکھائیں
ورنہ پھر کہیں اور چوری ہو جائیگی کہ
چور تے سالا پھڑیا ای نئیں!

قرۃ العین صبا

(Visited 1 times, 1 visits today)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *