نو نومبر اردو کے ممتاز مصنف شفیق الرحمان کا تاریخ پیدائش ہے۔
”شفیق الرحمان کی کتابیں پڑھ کر شوخ رنگوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے سرخاسرخ، نارنجی، یاقوتی اور زعفرانی“۔
شفیق الرحمان کی شوخ رنگوں والی کتابوں کے فلیپ پر لکھے کرشن چندر کے یہ جملے اسوقت پوری طرح سمجھ میں نہیں آتے تھے شاید اس لئے کہ ہم اسوقت خود ان شوخ رنگوں والی عمر سے گزر رہے تھے۔ اخبار جہاں کے کٹ پیس اور مختلف رسالوں کے ”پھول پھول خوشبو“ قسم کے حصوں میں ایک نہ ایک شگفتہ تحریرایسی بھی ہوتی جس کے آخر میں لکھا ہوتا ”شفیق الرحمان کی کتاب سے ماخوذ ” یوں ان کے نام سے شناسائی تو تھی لیکن ان کی کی کتابوں سے باقاعدہ تعارف ڈی ایچ اے کالج کی خوبصورت لائبریری میں ہوا، وہاں اوپرکی منزل پڑھنے کے لئےکیبن اور میز کرسیوں سے آراستہ تھی اور بیسمنٹ میں لکڑی اور کتابوں کی ملی جلی مہک میں بسے بہت سارے شیلف تھے۔ آخری کونے پہ بنے کچھ شیلف ابھی خالی تھے، اوپر بنے کیبن میں میز کرسی کا تکلف چھوڑ کے ان کتابوں کی خوشبو میں بسی راہداری میں، خالی شیلفوں کے درمیان پھسکڑا مار کے کتابوں میں کھونے کا نشہ کچھ اور ہی تھا، ایسے میں پرانی چھپی ہوئی ”شگوفے“ ہاتھ لگی اور ایک نئی دنیا سے شناسائی ہوئی۔
کہتے ہیں کہ کتاب کسی کی دوست بن جاے تو وہ اکیلا نہیں رہتا لیکن اگر شفیق الرحمان کی کتابیں کسی کی دوست بن جایں تو اس کی تنہائی دور تک بہتی شفاف نیلی جھیلوں، نیلگوں آسمان پہ پھیلے ڈھیروں شفق کے رنگوں، بل کھاتی پگڈنڈیوں کے اطراف جا بہ جا بکھرے پیلے پھولوں، مسکراہٹیں بکھیرتی پھلجھڑیوں اور چاندنی رات کی فسوں خیز خوشبو سے مزین ہو جاتی ہے۔
انکی تحریروں سے بہت کچھ پایا، مثبت سوچنے کا سبق، سنہرے اور روشن خواب، قدرت کے ہر سو بکھرے ہوے رنگوں کا تعارف، رشتوں کا تقدس، مسکراہٹیں بکھیرتے کردار اور سب سے بڑھ کے زندگی کی خوبصورتیوں اور تلخ حقیقتوں کے ساتھ سلیقے سے نمٹنے کا ہنر۔
ان کی پہلی کتاب انیس سو اڑتیس میں بائیس سال کی عمر میں شائع ہوئی اسوقت وہ میڈیکل کالج کے طالب علم تھے، ان کے مرکزی کرداروں کی خوبی یہ تھی کہ عام کہانیوں کی طرح وہ صرف حسین و جمیل نہ تھے بلکہ افسانوں کے ہیرو ہیروئن کی ایک بھرپور شخصیت پیش کی گئی، ان کے کردار وجہیہ ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیم اور امتحانوں فکر میں بھی مبتلا رہتے، ان میں ایک سیاح کی روح بھی سمائی رہتی، مظاہر قدرت سے خاص انسیت ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا اسپورٹس مین ہونا بھی ضروری تھا، تیراکی، کرکٹ، بیڈ منٹن، ٹینس، برج، فٹبال، تقریبا ہر افسانے میں کسی نہ کسی کھیل کا ذکر ضرور ہوتا۔ اس کے علاوہ ادب، شاعری اور اچھا ذوق مزاح گویا ہیرو یا ہیروئن ہونے کی دلیل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کردار نگاری کے ساتھ ساتھ ان کی کہانیوں میں قاری کی تربیت کا بہت سامان موجود تھا۔
ان کے کردار بھولے بھالے اور خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی سے بہت قریب تھے۔ رضیہ، شیطان، بڈی، مقصود گھوڑا، حکومت آپا، جج صاحب کا کنبہ اور ”میں“ کا کردار جو کہ گویا ہر کہانی کی جان تھا۔ قابل، ذہین، خوش گو، خوش مزاج، اور ایک خوبرو اسپورٹس مین جو کہ بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول تھا اور جو ہر محفل میں اپنا رنگ جمانے میں کامیاب ہو جاتا اور کالج کے اسپورٹس بلیزر میں بھی خوب شاندار لگا کرتا۔
ن کی کہانیوں کا ماحول اپنے اندر تمام مشرقی قدریں سمیٹے پڑھنے والوں کے لیے ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند تھا، کہیں کلب میں بیڈ مٹن کا ٹورنامنٹ ہو رہا ہے تو کہیں شاعری اور موسیقی کی محفل جمی ہے، کہیں بڑے بڑے دالانوں والے گھر میں کنبے کے کنبے جمع ہیں اور برج، کیرم اور دوسرے کھیلوں کے مقابلے ہو رہے ہیں اور کہیں پورا خاندان گرمیوں کی چھٹیاں منانے ڈل جھیل کے کنارے کشمیر پہنچا ہوا ہے۔ ایسے میں کون ہوگا جس کے تخیل میں ان کی کتابیں پڑھ کے پھول نہ کھلتے ہوں۔
انکے جملے سادہ اور خوبصورت تھے اس لئے کچھ ہمیشہ کے لئے یاد رہ گئے، جیسے
”بچپن میں مجھے دو چیزیں بہت اچھی لگتی تھیں، یا گلاب کی کلیاں اور یا رات کی رانی کی مہک۔ آپا عذرا کو دیکھ کر مجھے دونوں چیزیں یاد آجاتیں“۔ (کرنیں )
شگفتگی شفیق الرحمان کی تحریر کا خاصہ تھی اور آج بھی بے شمار لطیفے ہیں جو دراصل ان کی کتابوں سے ماخوذ ہیں لیکن ان کی شکل توڑ مڑوڑ دی گئی ہے۔
”جہاں محبت اندھی ہے وہاں شادی ماہر امراض چشم ہے“۔ (مزید حماقتیں)
”ٹائی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اسے اتارتے وقت بڑی فرحت محسوس ہوتی ہے“۔ (دریچے)
”بھینس کے بچے ننھیال اور ددھیال دونوں پہ جاتے ہیں اس لئے فریقین ایک دوسرے پر تنقید نہیں کر سکتے“۔ (مزید حماقتیں )
منظر نگاری کمال تھی اور ناصح میں ایک پرخلوص دوست موجود تھا۔
”خوشیاں باہر سے نہیں منگوائی جاتیں یہ تو ڈھونڈی جاتی ہیں، بے کیفی اور یکسانیت کے تالاب سے خود کھینچ کر نکالنی پڑتی ہیں“۔ (دجلہ)
”خوش رہا کرو، خوامخواہ نفرت کرنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس سے خود اپنی نیند اور بھوک تباہ ہوتی ہے، بلڈ پریشر بھی بڑھتا ہے لہذا عمر کم ہوتی ہے، اور جس سے نفرت کی جاے اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا، یہاں تک کہ اس کے سر میں اتنا سا درد تک نہیں ہوتا“۔ (دجلہ)
”سورج غروب ہو رہا تھا کہ یکایک دوسرا کنارہ جگمگا اٹھا، وہاں بادل کے ٹکڑوں اور دھند نے ایسا رنگین اور خوشنما محل بنا دیا کہ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ہم نے رستم کو اشارے سے محل دکھای، “کون کہتا ہے کہ وہ کنارہ بھی ایسا ہی ہے، وہ دیکھو“۔ بھر سب کچھ نیلا ہو گیا، آسمان، جھیل، بادل اور فضا اور۔ دوسرا کنارہ۔ “ (حماقتیں )
”یہ رنج و غم سب وقتی چیزیں ہیں۔ بلکل نا پایدار، نہ تو خوشی ہی دیر تک رہتی ہے نہ اداسی۔ بلکہ ایسی محبوب ہستیوں کی یاد ہمیشہ کے لئے دل میں محفوظ رہتی ہے، اور ایسے مسرور لمحوں کی یاد بھی جو کبھی مسکراہٹوں میں بسر ہوے تھے۔ یہی یاد زندگی کی ویرانیوں میں رفیق بنتی ہے۔ سب کچھ اجڑ جانے پر بھی زندگی کی تاریکیاں انہی کرنوں سے جگمگا اٹھتی ہیں۔ یہ جھلمل جھلمل کرتی ہوئی پیاری پیاری کرنیں“۔ (کرنیں)
میں دیس سے پردیس آئی تو بھی پیلے اور ہرے رنگ کی یہ شوخ رنگوں والی کتابیں میرے ساتھ رہیں اور جہاں جہاں زندگی کے رنگوں پہ اداسی نے ڈیرہ ڈالا میں نے ان کتابوں میں آباد نیلی جھیلوں میں پناہ لی اور پھر مجھے کرشن چندر کے جملے خوب سمجھ میں آے کہ واقعی ”شفیق الرحمان کی کتابیں پڑھ کر شوخ رنگوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے سرخاسرخ، نارنجی، یاقوتی اور زعفرانی“۔
اللہ تعالی ان کو غریق رحمت کرے، آمین۔
شفیق الرحمان کے شوخ رنگوں کی یادیں