مہینے دو مہینے میں ایک دن ایسا آتا ہے جب ہم دوستیں سنڈریلا بن جاتی ہیں ،وہ سنڈریلا نہیں جو اپنا جوتا بھولنے شہزادے کی تلاش میں نکل پڑی ہو بلکے وہ سنڈریلا جو کچھ دیر کے لئے اپنے شہزادے شہزادیوں سے بریک لیکر انھیں اپنے بادشاہ کو سونپ کر، گھر کے کام کاج بھول کے ،اپنے آفس اور نوکریوں کی ٹینشن بالا ٍطاق رکھ کے تھوڑی دیر کے لئے کھلندڑی شہزادی بن جاتی ہے ،کینیڈا کی سنڈریلاؤں کے کام کبھی ختم نہیں ہوتے ،بھاگتی دوڑتی زندگی میں گھراور باہر کے کام بچوں اور احباب کے پلڑوں کو کتنا ہی برابر کرنے کی کوشش کروں میزان قائم نہیں ہو پاتا اسلئے سانس لینے کے لئے کبھی کبھی زندگی کی ایک ہی ڈگر پہ دوڑتی ریل گاڑی سےباہر جھانکنا بھی ضروری ہے تاکہ تازہ دم ہو کے دوبارہ سفر جاری رکھا جا سکے .
اس بار ہم نے میڈیول ٹائمز کا انتخاب کیا ، یہ جگہ ٹورنٹو ڈاؤن ٹاؤن میں واقع ہے یہ دراصل ایک تھیٹر ہے جسمیں گیارویں صدی کا منظر پیش کیا جاتا ہے ،فطرت انسانی ہے کہ اسے اپنے منظروں سے ہٹ کے منظر دیکھنے میں مزہ آتا ہے ، یہاں کے ماحول میں آکے آپ تھوڑی دیر کے لئے صدیوں پیچھے چلے جاتے ہیں ،یہ دور ملکہ بادشاہ کا دور ہے ،یہاں ملکہ ہے ،وزیر ہیں ، خوبصورت گھوڑے ہیں،عقاب ہے ،،دلیر سپاہ سالار ہیں، تلواریں ہیں اور لڑائیاں ہیں .آپکو ملکہ کی جانب سے شاہی کھانا بھی پیش کیا جاتا ہے جسکی قیمت ظاہر ہے آپ ٹکٹ کی صورت ادا کر چکے ہوتے ہیں، یہ شاید ٹورنٹو میں مسلم آبادی کا کرشمہ ہے کہ یہاں آپ اگر پہلے سے بتا دیں تو آپکے لئے حلال کھانا بھی حاضر کے دیا جاتا ہے جسکی وجہ سے بلا وجہ آپکو سبزیاں نوش نہیں کرنی پڑتیں ،خدام آپکو “لیڈی ” اور “لارڈ ” کہتے نہیں تھکتے اور آپ خواں مخواں اتراے چلے جاتے ہیں .
جاتے ہی آپکو کاغذ کا تاج پہنایا جاتا ہے ،کیونکے تھیٹر میں کئی رنگوں کے سپاہ سالار ہیں جنکی آخر میں نورا کشتی ہونی ہے تو آپکو انہی رنگوں کے تاج دے جاتے ہیں یوں ہر سپاہ سالار کو داد دینے کے لئے ایک ٹیم وجود میں آ جاتی ہے اور اسی حساب سے آپ کے لئے کھانے کی میز کا تعین کیا جاتا ہے،اگر آپ نے اپنا ٹکٹ اپ گریڈ کروایا ہو تو آپ کو ملکہ یا بادشاہ کے ساتھ تصویر کھچوانے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے اور آپکو اسٹیج پہ بلا کے خلعت بھی عطا کی جاتی ہے، اگر آپ اپنا کوئی خاص دن منانے آے ہیں تو اسکا شاہی فرمان کے طور پہ اعلان بھی ہوتا ہے، صورت حال اسوقت دلچسپ ہو گئی جب خلعت کے لئے ایک نام کا اعلان کیا گیا لیکن پتا چلا کے وہ صاحب باتھ روم گئے ہے ہیں،سب خوب ہنسے،ملکہ نے برہمی سے فرمایا یوں کوئی کیسے باتھ روم جا سکتا ہے؟
شو شروع ہوا تو سپہ سالاروں کا تعارف ہوا ،گھوڑوں کا رقص اور شاہی عقاب کی اڑان دکھائی گئی،ملکہ کا خاص گھوڑا پیش کیا گیا،جس پہ زین اور کاٹھی نہیں تھی اور جسکی سفیدی واقعی آنکھوں کو خیرہ کررہی تھی،اگر براق کا کوئی گمان تھا تو وہ شاید کچھ ایسا ہی ہوگا ،ملکہ نے سپاہ سالاروں کو پھول پھینکے جو انہونے اپنے داد دینے والوں کی طرف اچھالے ایک پھول قسمت سے ہمارے گروپ کے حصّے میں بھی آگیا ،شاہی فرمان کے طور پہ اپ گریڈڈ ٹکٹ والوں کو تہنیتی پیغام دیے گئے،کسی کی سالگرہ تھی ،کوئی شادی کی انتیسویں اینورسری منانے آیا ہوا تھا ،ایک پیغام کو خاص طور پہ سراہا گیا اور وہ “On beating the breast cancer”تھا
یعنی “بریسٹ کینسر کو شکست دینے کی خوشی میں ” ،اسکو سرہانا حق بجانب بھی تھا.آخر میں بہادروں کی لڑائیاں پیش کی گیئں،لوہے کا گزر گھومتا دیکھ کر امیر حمزہ کی کہانیوں کا “لندھور” یاد آ گیا بلکہ ڈھالوں اور تلواروں سے اٹھتی چنگاریوں نے پوری امیر حمزہ سیریز کی یادیں تازہ کردیں .
ہجرت کرنے والوں کے ساتھ ایک مسلہ یہ بھی ہوتا ہے کے وہ کسی قسم کے بھی تجربے سے گزریں اسے اپنے وطن سے نتھی کرنے کوشش ضرور کرتے ہیں،میری ذہنی رو بھی اسی طرف بہک رہی تھی ،اب جب کہ ہر طرف پاکستان میں ٹورازم انڈسٹری کو فروغ دینے کی باتیں کی جا رہی ہیں ،ہمارے پاس اسطرح کے کام کرنے کے لئے بہت کچھ ہے ،میرے خیال میں بھی اپنے ملک کی کی خوبصورت اور تاریخی عمارتیں گھوم گیئں،صرف لاہور پہ ہی نظر گھمایں تو مغلیہ دور کی کیا کیا یادگاریں موجود ہیں لیکن بد قسمتی سے بے انتہا کسم پرسی کا شکار ہیں بہرحال میڈیول ٹائمز کا تجربہ منفرد اور خوبصورت تھا، باہر نکلے تو رات یخ بستہ ہوئی جاتی تھی،گھڑی کو بارہ بجانے میں ابھی ایک ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا لیکن صبح کی جاگی اور کچھ اپنی جابز کے بعد یہاں پہنچی سنڈریلایں اب تھک چکی تھیں سو دوبارہ ملنے کے ارادے سے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہہ کے اپنے اپنے بادشاہوں اور شہزادے شہزادیوں کے پاس اپنے محلوں میں لوٹ گیئں .
کینیڈا کی سنڈریلائیں اور میڈیول ٹائمز
(Visited 6 times, 1 visits today)