!نہ پوچھا کریں

تحریر : قرۃ العین صبا
میرا بڑا بیٹا غالباً سال بھر کا تھا ،میں بیس کی اول اول دہائی میں تھی۔ عمر کے ساتھ ساتھ سمجھ بوجھ بھی کم تھی۔ ایک دن کسی ملنے والے کے گھر گئے تو اُنکے ہاں اُنکی کوئی رشتےدار خاتون بھی آ گئیں، کچھ ایسا ہوا کہ میزبان کسی کام سے اٹھے تو میں اور وہ خاتون کمرے میں رہ گئے۔ خاتون عمر رسیدہ تھیں ساٹھ کے قریب ہونگی ،مجھے دادی نانی سی معلوم ہوئیں ،کچھ سوال اُنہونے میرے بیٹے کے متعلق پوچھے میں نے جواب دے دیا۔اب گفتگو آگے بڑھانے کے غرض سے اسوقت میری یہی سمجھ آیا کہ اُنکے بھی بچوں کے متعلق پوچھوں۔
میں نے سوال داغ دیا ،”آپ کے کتنے بچے ہیں “
ایک نظر مجھے دیکھا اور کچھ عجیب یاسیت بھرے لہجے میں گویا ہوئیں جیسے میرے ساتھ ساتھ خود سے بھی باتیں کر رہی ہوں۔
نہ کوئی مال دولت کے بارے میں پوچھتا ہے نہ کچھ اور لیکن بچوں کا سب ضرور پوچھتے ہیں
میں ایک لحظہ چپ ہو گئی ، وہ پھر دونوں ہاتھ کھول کے سر کو جنبشِ دے کر بولیں ” ہوئے ہی نہیں ” لہجے میں سالوں جواب دہی کا اعتماد، دکھ، بیچارگی, یاسیت اور بھی پتہ نہیں کیا کیا پنہاں تھا۔
مجھ پہ جیسے گڑھوں پانی پڑ گیا
اتنے میں میزبان دوبارہ کمرے میں آ گئے۔

وہ دن اور آج کا دن۔ چاہے کوئی بیس سال کی نئی شادی شدہ لڑکی ہو یا ساٹھ ستر سال کی بزرگ خاتون جب تک پتہ نہ ہو کہ بچے ہیں کبھی دانستہ بچوں کے متعلق سوال نہیں کرتی۔
جانے کون کن کن مراحل سے گزر رہا ہو، ہر مہینے نئی اُمید اور نئی ازیت کاٹتا ہو ، وقت قدرت کی طرف سے متعین ہے یا خود سے ایسے حالات سے گزر رہا ہو کہ نئی زندگی دنیا میں لانا کہیں نیا امتحان نہ بن جائے۔ کتنے علاج معالجوں کی تکلیف اٹھا رہا ہو۔قصور وار نہ ہوتے ہوئے بھی لوگوں کی خوامخواں کی باتیں برداشت کر رہا ہو اور محفل میں بچے کا ذکر آتے ہی دل ہی دل میں چور سا بن جاتا ہو ۔ ہم نہیں جانتے! لوگ اولاد کے نام پہ اپنے اندر کیسی کیسی جنگیں لڑ رہے ہوتے ہیں ہم نہیں سمجھ سکتے۔

میں نہیں پوچھتی
آپ بھی نہ پوچھا کریں
بہت تکلیف ہوتی ہے!

(Visited 10 times, 1 visits today)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *