Be Mindful

کون کس سے مل رہا ہے، کون کس سے الگ ہو رہا ہے، کس کو کس چیز کا لالچ ہے، کون اپنے گندے کپڑے چوراہے پر دھو رہا ہے یا اُتار رہا ہے۔ صحیح غلط سب خلط ملط ہے لیکن جاہلوں کی اس لڑائی میں سب سے زیادہ نقصان پتہ ہے کس کا ہو رہا ہے؟ہمارے معاشرے اور ہماری نسلوں کا!

ہم سوشل میڈیا کے اس جنگلی اور جہالت سے بھرپور عہد میں جی رہے ہیں جہاں ساری حدود، تہذیب اور تمام تر قدریں مٹ چکی ہیں، احساس مر گیا ہے اور حیا نے خود کشی کر لی ہے۔

سوشل میڈیا کا یہ جھنجھنا ہر ایک کہ پاس ہے اس کے ہاتھ میں بھی جو دانش رکھتا ہے اور بد قسمتی سے اس کے ہاتھ میں بھی جو نرا جاہل ہے اور نا صرف اسے باؤلا ہو کے بجا رہا ہے بلکہ اسے ایک دوسرے کے سروں پہ مار مار کے آوازوں سے بھی محظوظ ہو رہا ہے۔

ملنا ، شادیاں، بریک اپ یہ تو جیسے ایک کھیل بن گیا ہے لیکن ان سے ایک نئی چیز جو جُڑ گئی ہے وہ ہے “غلیظ قسم کا بدلہ”

پہلے اسے بلیک میلنگ کہا جاتا تھا ، جب اپنی نازیبا تصویریں محبت میں ایک دوسرے کو بھیج دی گئیں اور بعد میں یہ دھمکیاں ملیں کہ لیک ہو جائیں گی۔ایسے کئی مسائل خواتین کے گروپ میں نظر آتے ہیں اور مشورہ مانگا جاتا ہے۔

اب تک تو یہ حرکتیں غیر قانونی اور دھوکے کے کیسز میں سامنے آتی تھیں لیکن اب کچھ نوٹنکیوں نے شادی جیسے مقدس بندھن کو بھی اس غلاظت کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔

جب ایک دوسرے کے لباس علحیدہ ہوتے ہیں تو اُنھیں بدلہ لینے کے لیے تار تار کرنے کا نیا رواج پروان چڑھ رہا ہے۔اس پہ دین ایمان بیچ کے ویوز اور لائیکس پہ جان دینے والے بڑے بڑے کیپشن اور کمنٹری کے ساتھ نمک مرچ لگا کے مزید تعفن پھیلاتے ہیں۔ ان ویوز سے کتنا کمائیں گے اور کس منہ سے ان کمائیوں کا حساب دیں گے؟

ایسا نہیں کہ یہ کوئی انہونی بات ہے لیکن جب کسی مشہور شخصیت کے بارے میں ایسی کہانیاں سامنے آتی ہیں اور ہنگم شیئرنگ کی بدولت انہیں اچھالا جاتا ہے تو آپ چاہیں نہ چاہیں کہیں نہ کہیں سے یہ گند آپ کی وال پہ ضرور نمودار ہوتا ہے اور آپ کتنا ہی بچنے کی کوشش کریں گندگی اور بدبو کا یہ طوفان آپ کے خاندان اور بچوں تک بھی ضرور پہنچتا ہے۔

آجکل اوسطاً تیرہ سال کا بچہ کوئی نہ کوئی سوشل میڈیا اکائونٹ ضرور رکھتا ہے، تیرہ سال پھر میں نے زیادہ لکھ دیا جہاں والدین کی طرف سے زیادہ آزادی میسر ہے وہاں آجکل آٹھ نو سال کا بچہ بھی آپ کو کہیں نہ کہیں سوشل میڈیا پہ دکھائی دیتا ہے۔ آپ اسے اس گندگی سے کیسے بچا سکتے ہیں؟

دوسرا بڑا نقصان یہ کہ ایسے رویئے نا صرف نئی نسل کو نئی راہیں دکھاتے ہیں بلکہ وائرل ہونے والی گھٹیا ویڈیوز کی اس قدر شیئرنگ سے معاشرے میں یہ چیزیں ایک معمول کی سی حیثیت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔

کہتے ہوئے اچھا تو نہیں لگتا لیکن ویوز اکھٹا کرنے کے لیے جاہل لوگ اور مرچ مسالے والے چینل تو جہنم میں اپنے گھروں کا انتظام کر ہی رہے ہیں لیکن ہے شمار پڑھے لکھے باشعور لوگ جب اس قسم کا مواد شیئر کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو واٹس ایپ کے ذریعے بھیجتے ہیں تو سمجھ نہیں آتا کہ کونسی اعلیٰ پائے کی گفتگو کا آغاز اور اصلاح مقصود ہو تی ہے۔

صحیح غلط کو جانے دیں، یہ تماشے تو ہر وقت کے ہیں لیکن اس تباہی سے اخلاقیات کا جو جنازہ نکل رہا ہےخوف آتا ہے کہ کیا مستقبل میں رشتوں کا تقدس برقرار رہ پائے گا؟ کیا ہماری اگلی نسلیں اسکا بوجھ سہار سکیں گی؟

سوشل میڈیا پہ پڑھنے اور دیکھنے والے مواد کو اپنے  اندر اتارنے سے پہلے چند سیکنڈ کے لیے ضرور سوچیں کہ

کیا وہ آپ کے وقت اور توجہ کے قابل ہے؟

وہ آپ کی اور دوسروں کی ذہنی کیفیت پہ کیسے اثر انداز ہوگا؟

کیا وہ آپ کے یا کسی اور کے لیے کسی بھی لحاظ سے مفید ہے؟

کیا اس سے کوئی مثبت فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے یا صرف تفریح کے نام پہ جنک فوڈ کی طرح اپنی روح کو سیراب کرنے کے بجائے وقتی طور پہ کوڑے کے ڈرم کی طرح بھرنا مقصود ہے؟

اور جب بھی کوئی چیز شیئر کریں تو اوپر والے سوالوں کو تین بار سوچیں کہ کہیں آپ انجانے میں گناہِ جاریہ کے مرتکب تو نہیں ہو رہے؟ اپنی عقل، ہوش و حواس استعمال کریں، اور ویوز کے لیے ضمیرِ بیچنے والے مداریوں کے ہاتھوں بیوقوف بنیں سے بچیں کیونکہ ہم میں سے ہر فرد اپنے ہر عمل کے لیے جواب دہ ہوگا۔

اللہ ہم سب کو ہدایت دے اور اس فتنے سے ہماری نسلوں کو محفوظ فرمائے، آمین

قرۃ العین صبا

#سوشل_میڈیا

(Visited 6 times, 1 visits today)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *