تھوڑی سی آسانیnتحریر: قرۃ العین صبا
n
نوٹ:nپیارے ہم خیالو
n
ہو سکتا ہے کہ آج کی کہانی آپ کو تھوڑی بولڈ لگے یا پھر آپ میرے خیال سے متّفق نہ ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ہم سب کی کہانی ہے اور زمانہ بدل رہا ہے ۔ جب دنیا اسکرین کی صورت سمٹ کے ہمارے اور ہمارے بچوں کے ہاتھوں میں آ سمای ہے تو اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ اپنے بچوں کا پہلا ایجوکیٹر والدین خود بنیں تاکہ وہ اپنے تجسس کی گتھیاں سلجھانے کے لیے غلط ذرائع نہ اخیتار کریں اور سلجھے ہوئے طریقے سے اُنہیں عمر کے مطابق صحیح معلومات خود دی جا سکے۔nاس موضوع کو میں نے کہانی کی صورت لکھا ہے کیونکہ کہانیاں سمجھنا اور اُن سے سبق لینا آسان ہوتا ہے۔nبہت سوچ کے اس موضوع پہ قلم اٹھایا ہے اسلیےnآپ کی رائے کا شدت سے انتظار رہے گا۔پسند آئے تو ضرور شیئر کریں۔ اب کہانی پڑھیے۔n—————————————————————————–
n
تھوڑی سی آسانیnتحریر: قرۃ العین صبا
n
رمضان اُسکے پسندیدہ تھے. بچپن میں ایک بار جب شامn کو رمضان کے چاند کی بحث چل رہی تھی کہ آج چاند ہوگا کہ نہیں تو خالہ امّاں نے کہا تھا ارے دیکھو نا ،نظر نہیں آ رہا رمضان برس رہے ہیں اور اُسنے حیرت سے پوچھا خالہ امّاں یہ رمضان کیسے برستے ہیں؟ وہ بولیں دیکھ نا بیٹا باہر اس شام میں ،اس عصر مغرب کے وقت میں ،ہمارے احساس میں اتر آتا ہے یہ مہینہ ۔وہ سوچ میں پڑ گئی اور پھر کچھ ہی دیر بعد رمضان کے چاند کا اعلان بھی ہو گیا، وہ خالہ امّاں کی معترف ہو گئی۔رمضان کا احساس اور روح کیسے دل میں خود بہ خود اُترتی ہے اسکا اندازہ اسے وقت کے ساتھ ساتھ دھیرے دھیرے ہوا کہ اسے سمجھنے کے لیے بھی ریاضت اور وقت درکار ہوتا ہے۔
n
رمضان کے روٹین سے اسے محبت تھی ،بچپن میں جب روزہ فرض نہیں بھی تھا اس وقت آدھی رات کی چہل پہل، گرما گرم پراٹھوں کی خوشبو اور بہن بھائیوں کی خوش گپیوں کے لالچ میں کبھی وہ مندی مندی آنکھوں سے جاگ ہی جاتی اور کبھی نہ اٹھ سکنے پہ افسوس سا رہتا۔ پھر افطار کے مزے الگ، اسکول کا وقت بھی گھٹ جاتا اور رات کو جب ابّو اور بھائی تراویح کے لیے چلے جاتے تو امی اور آپا کے ساتھ وہ بھی شفاف دھلی دھلائی چادر پہ خوشبو لگی جا نمازوں پہ نماز کی نیت باندھ لیتی۔یوں تو بچپن کی نمازیں گنڈے دار تھیں لیکن یوں سب کا ساتھ ساتھ اہتمام اسے بہت اچھا لگتا۔الغرض جو رونقیں یہ مہینہ ساتھ لے آتا تھا اُسکا کوئی بدل ہی نہیں تھا۔
n
پھر جب بچپن سے لڑکپن میں قدم رکھا تو عمر کے ساتھ ساتھ روزوں کی روٹین میں بھی کچھ تبدیلی آئی ،جب روزے فرض ہوئے تو نیند اور بھی ٹوٹ کر آنے لگی ایسے میں جب روزہ چھوڑنے والے دن آتے اور امی کی تاکید پہ اٹھ کے نہ صرف سحری کرنی پرٹی بلکہ سب کے سامنے روزہ بھی بنانا پڑتا تو وہ بری طرح چڑ جاتی۔ ذہنی اور جسمانی تبدیلیوں کی وجہ سے حالت پہلے ہی عجیب ہوتی تھی پھر ان دنوں کبھی سر درد کبھی کمر کا درد بے حال کر دیتا تھا اور غصّہ اور چڑ چڑا پن عروج پہ ہوتا ایسے میں اللّٰہ تعالیٰ نے تو آسانی دے دی تھی لیکن یہ کیا کہ بندے بے خبری میں اسے چھینے کے در پہ تھے۔جیسے تیسے زبردستی کی سحری کر کے وہ بستر میں غڑاپ ہونا چاہتی تو اس سے دو سال بڑا حسن تو اُسکی جان کو ہی آ جاتا، ،امی اسنے نماز نہیں پڑی، میں نے خود دیکھا ہے۔لاکھ ادھر اُدھر ہو جاؤ بہانے بناؤ وہ نہ ٹلتا۔حسن کی بیوقوفی پہ اسکو شدید غصّہ آتا ۔آپی اور امی زیرِ لب مسکرا دیتیں اور وہ اس کوفت سے بچنے کے لیے کہ اس سے پہلے حسن کا ریڈیو سارے گھر میں اعلان نشر کر دے وہ بیزاری سے نماز کی ایکٹنگ کرنے کھڑی ہو جاتی ۔
n
دکھاوے کی سحری کرو تو اچھی طرح کھایا بھی نہیں جاتا پھر سارا دن اسکول کالج میں تو کھانے کا سوال ہی نہیں تھا لیکن گھر میں بھی چھپ چھپ کے کھانے کی کوشش میں وہ ہلکان ہی رہتی۔ تنگ آکے ایک دن اُسنے سوچا علی الاعلان بغاوت کر دی جائے اور افطار سے کچھ دیر پہلے جان بوجھ کے پلیٹ سے پکوڑا اٹھا کے کھا لیا۔ ایک شور سا مچ گیا ارے روزہ ہے! سب سمجھے غلطی سے کھا لیا اُسنے بھی ڈھٹائی دکھائی، ارے میرا روزہ نہیں ہے۔ہیں کیوں؟ اب حسن پھر اُسکے سر ہوگیا۔ امی نے شدید قِسم کی گھوری مار کے بات سنبھالی ۔اسکی طبیعت خراب ہو گئی تھی سحری کے بعد ،کچھ کھانے میں آ گیا تھا ،قے آئی تو روزہ ٹوٹ گیا۔سب مطمئن ہو گئے لیکن اسے بعد میں اچھی خاصی جھاڑ پڑی کہ یہ کیا بے شرمی ہے۔ لو اب اسمیں بے شرمی کی کیا بات ہے ۔وہ کڑھ کے رہ گئی۔ بعد میں احساس ہوا کہ طریقہ کار تو واقعی مناسب نہیں تھا لیکن لڑکپن کا محدود سا ذہن بس ایسی ہی بیوقوفانہ حرکتیں کروا سکتا ہے۔
n
شادی کے بعد سسرال بھی بھرا پرا ملا۔گھر میں سسر دیور اور جیٹھ بھی تھے۔ شادی کے ساتھ ذمےداری بھی مفت ملتی ہے۔یہاں تو روزہ رکھنا ہو یا نہیں ناصرف روزہ دکھانا پڑتا بلکہ اٹھ کے سب کی سحری کا بھی اہتمام کرنا پڑتا۔کچن نیچے اور کمرہ چھت کے سرے پہ اوپر ۔گھر کے مردوں کہ آنے جانے کے اوقات بھی مختلف تھے۔نیچے تو کھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا اور اوپر لا کے کھانا ایک مرحلہ۔کبھی کبھی بس پانی اور کمرے میں موجود چیزوں سے گزارا ہوتا۔
n
وقت کچھ آگے کھسکا تو اُسکا اپنا آنگن بڑا ہو گیا، بچوں کی رونقیں بڑھیں تو وہ علحیدہ گھر میں آ گئے۔اب رمضان ذرا آسان ہو گئے۔وقت کو تو جیسے لگتا ہے پر لگ گئے۔بچوں کو وہ نماز روزے کی عادتیں اور اسی طرح کی رونقیں دینا چاہتے تھے جیسی اُنہونے دیکھیں تھیں۔
n
اس رمضان بھی وہ معمول کے کاموں میں مصروف تھی جب اچانک سے زید بول پڑا۔”امی آپ نے نماز نہیں پڑھی”؟ وہ ابھی ابھی نماز پڑھ کے آیا تھا۔دس سال کی عمر میں نماز کی کی تاکید اور یاد دھانی نے جہاں اسے نماز کی عادت ڈال دی تھی وہیں سوال کا اختیار بھی دے دیا تھا، آخر کو ماں باپ ہی پہلے رول ماڈل ہوتے ہیں جیسے اس سے سوال کیا جاتا تھا اسی طرح وہ بھی پوچھنے میں حق بجانب تھا۔ کیا جواب دوں؟ ایک لمحے کو وہ سوچ میں پڑ گئی۔کہہ دوں کہ پڑھ لی ہے یا پھر کوئی بہانہ بنا دوں،ابھی وہ شش و پنج میں تھی کہ اُسکی نظر اپنی آٹھ سالہ بیٹی پہ جا ٹھہری۔نہیں پھر وہی سب دوبارہ؟اُس نے ہانڈی کا چولہا بند کیا اور زید کے ساتھ صوفے پہ آ بیٹھی۔
n
بیٹا میں نے نماز اسلیے نہیں پڑھی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام خواتین کے لیے کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جب اُنکے اندر میڈکلی چینجز آ رہے ہوتے ہیں۔ زید نا سمجھی سے اُسے دیکھتا گیا۔ تھوڑا مشکل مرحلہ تھا لیکن اُسنے رسان سے اُسے سمجھنا نے کی ٹھانی۔nدیکھو بچے اللّٰہ تعالیٰ نے دو مختلف جینڈرز بنائی ہیں، اُسکی حتٰی الامکان کوشش تھی کہ وہ زید کو اسی کی زبان اور لہجے میں سمجھا سکے۔
n
سارے چھوٹے بچے ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن جب بڑے ہوتے ہیں تو لڑکوں میں الگ چینجز آتے ہیں اور لڑکیوں میں الگ۔ آپ کو بابا نے بتایا ہوگا نا ؟nزید نے ہاں میں سر ہلا دیا۔یہ بات تو میاں بیوی میں طے ہو چکی تھی کہ بچوں کو مناسب عمر میں پہنچنے پہ اُن سے جسمانی تبدیلیوں کے بارے میں کھل کے بات کر لی جائے تاکہ اُنکے ذہن میں گرہیں نہ پڑیں اور وہ تجسس میں کسی غلط ذریعے یا اپنے دوستوں کی اوٹ پٹانگ باتوں میں آ کے خواہ مخواہ کی الجھنیں نہ پال لیں اور انکو صحیح ذرائع سے صحیح معلومات فراہم کر دی جائے۔
n
اُس نے بات جاری رکھیnبس اسی طرح ایج کے ساتھ تبدیلیوں کی وجہ سے میلز کے ساتھ ساتھ فی میلز کو بھی کچھ چینجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اُنکے سسٹم میں ایک کلیننگ سائیکل بنتی ہے جس کی وجہ سے ہر مہینہ کچھ دن اُنکے لیے تھوڑے مشکل ہوتے ہیں، انکو تھوڑی کمزوری بھی ہو جاتی ہے اور درد اور تھکن بھی رہتی ہے اسلیے اللّٰہ تعالیٰ نے اُنہیں یہ آسانی دی ہے کہ وہ اُن دنوں نماز نہ پڑھیں اور روزے بھی نہ رکھیں پھر جب اُنکی طبیعت ٹھیک ہو جاتی ہے تو وہ چھ سات دن بعد روٹین میں واپس آ جاتی ہیں۔
n
زید نے تدبر سے سے ہلایا۔ اسے لگا کہ دس سال کی عمر کے لیے اتنی معلومات کافی ہے۔nتو بس ابھی میں اسی سائیکل سے گزر رہی ہوں اسلیے میں نے نماز نہیں پڑھی اور ایک بات اور بیٹا! یہ بات پرائیویٹ ہوتی ہے ،جیسے ہم اور بہت سی باتیں سب کے ساتھ پبلک میں ڈسکس نہیں کرتے اسی طرح اسکا بھی ذکر نہیں کرتے تو کسی کے سامنے یا اپنے دوستوں سے اس بارے میں بات نہیں کرنا ہاں اگر کوئی سوال ہو تو مجھ سے یا بابا سے پوچھ لینا۔ nصحیح زید نے سمجھداری سے سر ہلایا۔وہ اُسکا سر تھپتھپاتے ہوئے دوبارہ کچن کی طرف چل دی۔nامی، پیچھے سے زید کی آواز آئی۔nہاں! وہ پلٹی۔nآپ کو ہیلپ تو نہیں چاہیے؟ آپکی طبیعت صحیح نہیں ہے نا؟ nوہ پورے دل سے مسکرا دی ۔ نہیں جان ، بس کام ختم ہے پھر میں آرام کر لوں گی ،تھنک یو۔nاللہ کتنا آسان کام تھا اتنی سی کمیونیکیشن نے ایک چھوٹے سے ذہن میں احساس جگا دیا تھا جس سے یقیناً اُسکی زندگی میں آنے والی تمام عورتوں کو آسانی ہو جانی تھی۔ایک اطمینان کا احساس اُسکے اندر اتر گیا۔
n
قرۃ العین صبا
nn