Ramadan Reflections (Part 2)

جیسے کو تیساnتحریر: قرۃ العین صبا

n

بھابھی کی باتوں سے اُسکا جی بہُت ہی خراب ہوا تھا اور ویک اینڈ پہ کوئی پلان نہ ہونے کے باوجود وہ امی ابو کی طرف چلی آئی تھی، حماد نے بھی نہیں روکا ،خود وہ بھی کوئی اچھا محسوس نہیں کر رہا تھا لیکن جانتا تھا کہ شفاء کی بہُت دل آزاری ہوئی ہے۔ ماحول بدلنے سے تھوڑے بادل چھٹ جائیں گے ورنہ ویک اینڈ پہ اُن کے اپنے کئی پلان ہوتے تھے۔

n

دوپہر کو امی اُسے اچانک یوں دیکھ کی خوش ہو گئیں لیکن پھر اچھنبے میں پڑ گئیں, حماد باہر سے ہی چلا گیا؟ کیوں؟ اف یہ امياں اور ان کی فکریں وہ بد مزہ سی ہو گئی ۔اُنہیں اپنے دوست کے پاس جانا تھا ۔nابّو کہاں ہیں اس نے ادھر اُدھر نظر دوڑائی، وہ ذرا گاڑی ٹھیک کرانے گئے ہیں آجائیں گے تھوڑی دیر میں، کھانا کھالو میں نے آلو گوشت بنایا ہے مزیدار ساتھ میں کباب بھی تل لیتے ہیں, بتا دیتیں تو بچوں کے لیے بھی کچھ بنا لیتی. امی کے پاس نہ ہوتے ہوئے بھی کئی آپشن ہوتے تھے، نہیں ہم کھانا کھا کے نکلے تھے۔ بچے اب نانی اور خالہ سے لپٹ چُکے تھے اور یہ لاڈ کا سلسلہ اب جاری رہنا تھا۔

n

دو تین ادھر اُدھر کی باتیں کر کے وہ اپنے کمرے میں آ گئی، امی کے ساتھ تو دل کا بوجھ ہلکا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا ہمہ وقت فکر و خوف میں گھری وہ بس ہر حال میں امن دیکھنا چاہتی تھیں شفاء کو پتہ تھا کہ بات سننے سے پہلے ہی نصیحت شروع ہو جانی ہے حالانکہ وہ خود بھی خاصی صلح جو تھی لیکن کبھی کبھی آپ کسی سے بات کر کے اپنا محاسبہ چاہتے ہیں یا مشورہ چاہتے ہیں اور ضروری نہیں کہ یہ مشورہ کسی جھگڑے کی ابتدا ہی ہو، کبھی کبھی صرف کوئی سننے والا چاہیے ہوتا ہے کہہ دینے سے بھی آدمی ہلکا ہو جاتا ہے۔nوہ پھر نہ چاہتے ہوئے اپنے اور اپنی جیٹھانی کے رویوں کا موازنہ کرنے لگی۔ غلطی ہوئی ہے تو کہاں ہوئی ہے اور غلط ہے تو کون۔ کہتے ہیں نیند سب کچھ ٹھیک کر دیتی ہے، وہ بھی سوچوں سے جان چھڑاتے ہوئے نیند کی وادی میں اُتر گئی۔

n

بات یوں تو معمولی سے تھی لیکن جب بات تعلقات اور رشتوں پہ آتی ہے خاص کر اُن رشتوں پہ جن کے ساتھ ایک وقت گزرا ہو اور جنہیں پروان چڑھانے میں ایک ریاضت لگی ہو تو اگر وہاں سے تھوڑی بھی کڑواہٹ ملے تو بہُت لگتی ہے۔nحماد کے دو بڑے بہن بھائی تھے حارث بھائی کے بعد آپا تھیں جو لندن میں رہتی تھیں، اور پھر حماد، دونوں بھائیوں کی عمر میں کافی فرق تھا، جب شفاء بیاہی تو حماد بھائی کے تینوں بچے اسکول جاتے تھے، شروع میں گھر ایک تھا پھر ساس سسر کے انتقال کے بعد گھر بیچ کے تینوں بہن بھائیوں کا حصہ الگ کر دیا گیا ،گھر اب الگ ہو گئے تھے لیکن محلّہ ایک ہی تھا۔

n

حماد کی تو جیسے بھتیجے بھتیجی میں جان تھی، بچوں کے کئی کام کہے بغیر ہو جاتے تھے، بھائی بھابی کا ایک اشارہ کافی ہوتا اور حماد بوتل کے جن کی طرح حاضر، یہ لگاؤ اور کشش وہ شروع ہی میں محسوس کر چکی تھی اور اس نے ان رشتوں کے بیچ میں آنے کی کبھی کوشش بھی نہیں کی بلکہ وہ بھی حماد کا ساتھ دیتی تھی، اکثر اوقات کہیں اختلاف ہوتے ہوئے بھی اُسے حماد کی بات پوری کرنا پڑتی۔ جیٹھ جیٹھانی کے بچے اب شادی کے قابل تھے، اس کے بچے بھی کزنز پہ جان دیتے تھے لیکن تکلیف اُسے اس وقت ہوتی جب بدلے میں وہ گرم جوشی اور رویئے نہ ملتے۔

n

بھابھی اُن کی محبتوں کو بچوں کا حق سمجھ کے وصول کرتیں کہیں کہیں اپنے عمر اور رشتے میں بڑے ہونے کہا فائدہ اٹھاتے ہوئے دو چار باتیں بھی سنا دیتیں جو وہ در گزر کر دیتی، لیکن سب سے زیادہ تکلیف دہ وقت جب ہوتا جب اچھے اچھے موقعوں پہ وہ روایتی خواتین کی طرح سسرال والوں کا پتا صاف کر کے میکے والوں کو مسند پہ بیٹھا دیتیں۔

n

کچھ عرصہ پہلے جب اپنی بیٹی ردا کا رشتہ طے کیا تو اُسکا عندیہ اُنہیں بڑی آپا کے ذریعے لندن سے ملا پھر ایک ہفتے بعد بھائی بھابی چلے آئے۔nحماد خود بھی شاکڈ رہ گئے ،ردا اُنکی اکلوتی بھتیجی تھی کہا تو یہی گیا کہ سب بس آناً فا ناً ہو گیا ابھی تو ہاں نہیں کی ہے لیکن بات اُن تک پہنچ چکی تھی، بھابھی کے سب گھر والے شریک تھے۔ اب جھٹلانا اور خوشی کے موقع پہ جھگڑا کھڑا کرنا اُنہیں مناسب نہیں لگا، منگنی میں جوش و خروش سے شریک ہوئے لیکن دل میں بات رہ گئی۔

n

اب فہد کی دفعہ تو اُنہونے حد ہی کر دی، فہد ردا سے بڑا تھا اپنے چچا کے بہُت قریب تھا بلکہ جب حارث بھائی کا ٹرانسفر ایک سال کے لیے اسلام آباد ہوا تو وہ پڑھائی کی وجہ سے اُن کے پاس ہی رہا تھا، اس کی بات الگ تھی۔

n

اس بار بھی بھابی نے خوشی کے موقع پہ اُنہیں خوبصورتی سے کاٹ دیا تھا، برا ہو انسٹاگرام کا بھابھی کی چھوٹی بہن شفاء کے پاس ایڈ تھی اور آجکل لاہور سے آئی ہوئی تھی اور اس نے بھانجے کی محبت میں اسٹوریز اپڈیٹ کر دی تھیں۔ nشفاء کا دل بہُت خراب ہوا، یہ محبت کرنے والوں سے ایسی رازداری برتنا اُسکی سمجھ سے باہر تھا۔

n

دو دن بعد بھابی کا فون چلا آیا، اب وہ خواہ مخواں کے راگوں سے کافی پک چکی تھی ،بھابھی اس بات سے بے خبر کہ وہ جان چکی ہے اپنی کہانی میں مگن تھیں۔nجی میں نے فریحہ کے انسٹاگرام پہ دیکھ لیا تھا، نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے منہ سے نکل گیا۔nبھابھی تھوڑی گڑبڑا گئیں، فریحہ کی تو اب لازمی شامت آجانی تھی۔

n

ارے بھئی وہ بس گھر والے جا رہے تھے وہ آئی ہوئی تھی تو ساتھ چلی گئی، ابھی تو بہُت موقعے آئینگے۔اُنہونے بات سنبھالنے کی کوشش کی۔n”گھر والے” اُسکے دل کو کچھ ہواn پہلا اور اہم موقع تو نکل گیا، بس وہ دل میں ہی سوچ سکی۔ایک ہی بھائی ایک ہی محلہ ،ہر کام کے لیے آواز اُسے ہی پڑتی ہے لیکن ایسے موقعوں پہ اُنہیں گھر والوں میں شمار نہیں کیا جاتا تھا۔nایسا کیسے کر لیتے ہیں لوگ۔ بہُت تکلیف ہوئی تھی۔nحماد کو حارث بھائی نے بتایا تو وہ بھی شکوہ کیے بغیر نہ رہ سکا لیکن ایسے معاملات میں حارث بھائی بھی موم کے ناک ہو جاتے تھے۔

n

اس کی آنکھ کھلی تو باہر سے خوش گپیوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔تو نانا ابو آ چکے ہیں۔وہ مسکرائی ابو کی آواز نمایاں تھی۔nاسکو دیکھتے ہیں وہ حسبِ معمول کھل اٹھے، ارے اٹھ گئی میری بیٹی، سنیے ذرا چائے چڑھائیں میں فاروق بھائی کی بیکری سے سموسے جلیبیاں لاتا ہوں۔اُن کو پتہ تھا اُسے فاروق بھائی کی جلیبیاں بہُت پسند ہیں۔ارے ابو چھوڑیں بیٹھ جائیں کوئی ضرورت نہیں ہے۔ نہیں بس۔میں ابھی آتا ہوں تم ذرا چیک کرو تمہاری امی نے چائے چڑھائی یا نہیں۔

n

موسم بدل رہا تھا ،کراچی کی شامیں بڑی پیاری ہو گئیں تھیں، دالان سے آتی ٹھندی ہوا کے جھونکے لاؤنج تک آ رہے تھے۔nگرما گرم سموسے، جلیبیوں اور خاص کر سب کے ساتھ خوش گوار ماحول میں چائے پی کر مزا آگیا۔nکتنی بڑی نعمت ہیں یہ رشتے، اس نے سوچا۔

n

کیا بات ہے ہماری بیٹی کچھ چپ چپ ہے ، ابّو نے بھانپ لیا تھا ، تمہاری امی بھی کہہ رہی تھیں کہ آتے ہی سو گئی کھانا بھی نہیں کھایا۔nنہیں بس ایسے ہی۔وہ میکے میں سسرال کی شکایتیں کرنے والوں میں سے نہ تھی لیکن دل پہ بوجھ بھی تھا۔

n

چاہو تو بتا دو کبھی کبھی کہنے سے مسئلہ حل تو نہیں ہوتا لیکن کوئی راہ نکل آتی ہے۔امی بھی ساتھ ہی آ بیٹھی تھیں۔nپھر اس نے دل کا سارا حال کھول کے رکھ دیا۔nابو سوچ میں پڑ گئے۔ nارے چھوڑو اب ان چھوٹی چھوٹی باتوں پہ کیا دل جلانا۔ امی نے حسب توقع امن کا سفید علم لہرایا۔nوہ دل مسوس کے رہ گئی۔

n

نہیں خیر بات تو غلط ہے۔ ابو گویا ہوئے۔nشفاء کو تھوڑی ڈھارس ہوئی۔nبس اُنہونے تو عادت ہی بنا لی ہے۔ میں نے بھی سوچ لیا ہے اب میں بھی اپنے یا بچوں کے کسی کام میں اُن کو نہیں پوچھوں گی۔عزت اور اہمیت کیا صرف بڑوں کی ہوتی ہے؟

n

ہاں ٹھیک ہے بچے، ابھی کیوں دل چھوٹا کرتی ہے، جیسے کو تیسا، جب وقت آئیگا تو دیکھا جائیگا۔nامی نے پھر “مٹی پاؤ” رویہ اپنانے کی کوشش کی۔

n

نہ! یہ بھی ٹھیک نہیں! اس نے حیرت سے ابو کو دیکھاnکیا ٹھیک نہیں؟ انکا چہرے پہ سکون تھا۔

n

یہی جیسے کو تیسا کہ تم بھی وہی کرو جو اُنہونے کیا۔

n

ایک بار کی بات ہوتی تو ٹھیک تھا لیکن nلیکن جب کوئی بار بار غلط رویہ اپنائے تو پھر اسکو احساس تو دلانا چاہیے نا؟ اس نے سوال کیا۔

n

دیکھو بیٹا! ابو گویا ہوئے

n

انکا رویہ غلط ہے لیکن تم یہ بتاؤ کہ تم “عدل” کرنا چاہتی ہو یا “احسان”؟

n

شفاء گڑبڑا گئی، کیا مطلب؟

n

مطلب یہ کہ جیسا وہ کریں ویسا تم کرو، یہ عدل ہے۔nانصاف کی بات ہے کہ کسی کی برائی کے بدلے تم بھی اچھائی نہ کرو۔

n

لیکن “احسان” کچھ اور ہے۔nاحسان یہ ہے کہ اُنکی برائی کے بدلے میں بھی اپنے اچھے رویئے نہ چھوڑے جائیں بلکے اُنہیں جاری رکھا جائے، اور اُن سے بدلے کی توقع نہ کی جائے

n

تو پھر کس سے توقع کریں؟ اُسکی آنکھوں میں حیرت تھی، ایک دم ہی سوال منہ سے پھسل گیا تھا لیکن اگلے ہی لمحے وہ اپنے سوال پہ خود شرمندہ ہو گئی۔

n

ابو مسکرا رہے تھے

n

هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُۚnاور نیکی کا۔بدلا نیکی کے سوا کچھ بھی نہیں

n

دنیا کے ہر انسان کے گرد اپنی ذات کی روشنی کا ہالہ ہوتا ہے جس سے ٹکرا کے روشنی دوسروں پہ منعکس ہوتی ہے۔یہ روشنی دراصل اعمال، تربیت، اور احساس کا آئینہ ہوتی ہےnہم سب زندگی کو اپنے وقار کے مطابق برتتے ہیں۔اگر دوسروں کے اندھیرے دیکھ کے اپنی ذات پہ بھی اندھیرے اوڑھ لیے جائیں تو یہ عقل مندی تو نہیں ہوئی نا؟ اور رہی بات توقعات اور اجر کی تو انسان تو اس معاملے میں بہت کمزور اور کم ظرف ہوتے ہیں تو کیوں نہ بگ پکچر دیکھی جائے۔بدلہ اُدھر سے نہیں ملے گا جہاں نیکی کی ہے بدلہ تو وہاں سے ملے گا جہاں سے گمان بھی نہ ہو اور پھر یہ تو وعدہ ہے۔

n

ہمم، ابو نے اسے سوچ میں ڈال دیا تھا

n

تمہیں کیا لگتا ہے؟، وہ پھر گویا ہوئےnذہنی سکون، زندگی میں طمانیت، بچوں کی خوشیاں، صحت تندرستی، کوئی بڑی آزمائش نہ ہونا، پیسے کی کشادگی، چھوٹی بڑی آسائشیں یہ سب نعمتیں کیا ہمیں یونہی مل جاتی ہیں؟ نہ بیٹا، یہ سب کہیں اُسکی رحمتیں ہیں، کہیں انعام ہیں، کہیں اجر اور کہیں امتحان بھی۔بس ہم سوچتے نہیں اور بدلے کے لیے غلط دروازے کی سمت دیکھتے رہتے ہیں اور یہ تو پھر دنیاوی بدلے ہیں بعد کا انعام تو اس سے کہیں بڑھ کر ہوگا انشاءاللہ۔

n

ابو کی باتوں نے جیسے اُسکے اندر تک سکون بھر دیا تھا۔nابو آپ بھی نا، وہ کھل کے مسکرا دی۔ایسا پلٹتے ہیں بات کو کہ آدمی کچھ کہہ بھی نہیں سکتا۔nوہ ہنس پڑے۔

n

جاؤ اب حماد کی خبر لو، وہ اس معاملے میں تم سے زیادہ رنجیدہ ہونگے۔ کہنا بریانی کی خوشبو مزیدار آ رہی ہے کچن سے، جلدی آ جائیں۔

n

ابھی کرتی ہوں، اُسکا موڈ ایک دم بدل گیا تھا۔nابو آپ کو نا، موٹیویشنل اسپیکر ہونا چاہیے تھا آپ کے تو یونہی ملین فالورز ہو جاتے۔n آئیڈیا اچھا ہے ،ابّو تھوڑا سا اترا کے مسکرائے تو وہ ہنس پڑی۔

n

بے شک نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ بھی نہیں لیکن مسئلہ جب ہوتا ہے جب ہم بدلے کی توقع غلط جگہ سے کرنے بیٹھ جاتے ہیں حالانکہ ہماری نیکیوں کا اجر ہمارے گمانوں سے بہُت پرے کہیں پہلے سے ہی جاری کیا جا چکا ہوتا ہے۔

n

(Inspired by one of the video of Professor Dr Javed Iqbal )n#رمضان_کہانیاں

(Visited 1 times, 1 visits today)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *