اہتمامِ رمضان

رمضان کی آمد اور چہل پہل ہر جگہ محسوس کی جا سکتی ہے۔nآپ سب کو بھی آنے والے رمضان اور اُسکی برکات بہت بہت مبارک۔n رمضان کی تیاری کیسے کی جائے اس بارے کئی لوگوں نے بات کرنے کا تذکرہ کیا۔ تو پہلے آئیے اس تیاری پہ جو رمضان کی آمد کے سلسلے میں ہر گھر میں ہوتی ہے۔

n

پچھلے کچھ سالوں سے رول ،سموسے بنانے کہ سلسلہ موقوف تھا کیونکہ کوشش تھی کہ تلی ہوئی چیزوں کو کم کیا جائے۔افطاری میں فروٹ چاٹ، چھولے، اور بکیڈ چیزوں پہ زور تھا اور ائر فرائر کی بدولت کچھ چیزیں مثلاً پیٹیز وغیرہ بنانا بھی آسان ہو گیا ہے۔

n

اس بار میں نے رول سموسے وغیرہ کا اہتمام کیا ،اسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بچے ماشااللہ بڑے ہو رہے ہیں یہ چیزیں گھر میں بنتی دیکھیں، سیکھیں اور اُنہیں اسمیں شامل کیا جائے ۔nاسکے علاوہ کھانا یا افطار الحمدلللہ گھر میں بہت بڑا مسئلہ نہیں، کسی دن افطار کسی دن کھانا کافی ہوتا ہے nیوں بھی ہمارے ہاں افطار کا وقت تقریباً بجے ہے اور پھر سحری کا آغاز چار بجے کے قریب ہو جاتا ہے، اسلیے الگ الگ اہتمام کا وقت نہیں۔

n

صفائیاں گھر کے معمول کا حصہ ہیں، ذرا ڈیپ کلیننگ ہو تو گھر خاص لگنے لگتا ہے، باقی کچھ چیزیں ہیں جو روز استعمال ہوتی ہیں nجیسے ہم عموماً جاء نمازوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔یہ مسلسل استعمال ہوتی ہیں لیکن انکی دھلائی کم کم کی جاتی ہے سو گھر کی سب جا نمازیں دھو لی جائیں اور خوشبو کا استعمال کر کیا جائے تو ایک تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ ایک گوشے میں تھوڑی سی سجاوٹ کے ساتھ قرآن اور سپارے رکھ دیے لیں کیونکہ جب چیزیں سامنے ہوں تو استعمال روٹین میں رہتا ہے۔

n

جس طرح اس مہینے میں جاگنے کا روٹین بدلتا ہے اسی طرح سونے کے اوقات بھی اثر انداز ہوتے ہیں، گھر کا ماحول بدلنے میں گھر کے بستر بہت اہمیت رکھتے ہیں۔صرف چادریں اور کمفرٹر کے کور بدلنے سے گھر میں نیا پن محسوس ہونے لگتا ہے ،یہ اہتمام عموماً مہمانوں کے آنے پہ ضرور کیا جاتا ہے اور رمضان تو پھر خاص مہمان ہیں۔

n

یہ سب کام ایک ہی دن میں سب کے ساتھ مل کے کیے جا سکتے ہیں۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ خود کو بیجا نہ تھکائیں۔ہے تحاشا صفائیوں اور سجاوٹوں میں خود کو ہلکان نہ کریں تاکہ عبادت میں توانائی اور وقت لگا سکیں۔

n

آخر میں تمام مرد حضرات سے درخواست ہے کہ افطاری اور کھانا اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے روزہ دار کی دو بڑی خوشیوں میں سے ایک تحفہ ہیں انہیں گھر کی خواتین کے لیے ازیت نہ بنائیں۔nیقین کریں اگر ایک دن پکوڑے نہ ہوں تو روزہ آپکا پھر بھی مقبول ہو جائیگا۔ nافطار کے وقت دسترخوان یا ٹیبل پہ بیٹھ کے پکوان پہ تنقید نہ کریں، ذائقوں کی کمی بیشی کو چٹنی، کیچپ اور کئی اور نعمتوں سے پورا کیا جا سکتا ہے اسمیں اپنی باتوں اور لہجے سے کڑواہٹ گھولنے کی ضرورت نہیں۔nمجھے شدید حیرت ہوتی ہے جب نماز روزے کے پابند اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر عقیدت سے کرنے والے ان معملات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رویہ بھول جاتے ہیں۔nایک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج کا ہاتھ بٹاتےتھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کھانے میں عیب نہیں نکالا۔ پسند آئے تو تعریف کر کے کھائیں اور کچھ پسند نہ آئے تو خاموشی سے چھوڑ دیں۔nخواتین کے کاموں کی قدر کریں کہ وہ بھی آپ ہی کے جیسا روزہ رکھ کے پسینہ میں شرابور آپ کے لیے انواع اقسام کی چیزوں کا اہتمام کرتی ہیں۔

n

دوسری طرف خواتین بھی مردوں کے ان رویوں کی تھوڑی بہت ذمےدار ہیں۔ اکثر جب آپ بار بار یہ اعلان کرتی رہتی ہیں کہ “یہ تو ذرا ایسا ویسا پکا ہو تو کبھی نہ کھائیں” تو “یہ” کچھ ایسا سن سن کے بھی خود کو تھوڑا اعلیٰ تصور کرنے لگتے ہیں اور اسے ثابت کرنے کے لیے بھی کبھی کبھی چھوٹی چھوٹی چیزوں پہ بلا وجہ تنقید اپنا فرض سمجھتے ہیں پھر یہی رویہ دیکھ کے بچے بھی لاشعوری طور پہ اسے اپناتے ہیں اور مستقبل میں کسی کے لیے ایک اور تنقید نگار شوہر تیار ہو رہا ہوتا ہے۔

n

ہم سب انسان ہیں اور ہم سب کو چھوٹی چھوٹی باتوں میں اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے ، ہر منفی رویئے کو قبول کرتے رہنا بھی اسکو پروان چڑھانے کے مترادف ہے اسلیے موقع محل کے مطابق اس بارے میں بات کریں اور سمجھانے کی کوشش کریں۔nدعاؤں میں یاد رکھئےnاللّٰہ تعالیٰ ہمیں اس مہینے سے بھرپور فیض حاصل کرنے کی توفیق دیں،آمین

n

قرۃ العین صباn

n

(Visited 1 times, 1 visits today)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *