یہ لفظ بچپن سے جوان ہو گئے لیکن کبھی نہیں سنا، بہُت عرصے بعد مطلب سمجھ آیا شاید اسلیے کہ ہمارے معاشرے میں یہ بات معیوب سمجھی ہی نہیں جاتی کہ کسی کی جسمانی ساخت کے پیشِ نظر اُسکا مذاق اڑانا نہ صرف بری بات ہے بلکہ گناہ بھی ہے، لیکن نہیں جناب کتنے بہُت سارے الفاظ ہیں جو وقتاً فوقتاً اطراف کے لوگوں سے دوسروں کے لیے کان میں پڑتے رہے
موٹی/موٹا،کالا، ٹھگنا، چھوٹو،سوکھی، وغیرہ وغیرہ
ہمارے جنوب مشرقی کلچر میں
کچھ لوگوں کا تو نک نیم یا پیار کا نام ہی اُنکی کسی کمزوری اور خامی پہ رکھنا بلکل بجا سمجھا جاتا ہے اس بات سے بے خبر کہ پکارنے والے کے دل پہ کیا گزرتی ہوگی اور بیچارہ یا بیچاری بڑھاپے تک اسی نام سے پکارے جاتے ہیں۔
شرمندگی کی بات ہے کہ جب بحیثیتِ مجموعی باتیں کبھی سیکھی سکھائی نہیں جاتیں تو بہُت بڑے ہونے تک بھی ہمارا رویہ یہی رہتا ہے کہ بھئی جو جیسے اُسے ویسا ہی کہیں گے نا،اسمیں کیا برائی ہے؟
جن گھرانوں میں اخلاقیات پہ ان باتوں پہ ٹوکا بھی جاتا ہے وہاں یہ سب جب برابر ہو جاتا ہے خاص کر جب لڑکی دیکھنے کا وقت آئے
ایک جملہ نظر سے گزرا
” جب لڑکی دیکھنے جائیں تو گھر سے اپنا لڑکا بھی دیکھ کر جائیں”
لیکن نہیں ہم تو ایسے موقعوں پہ اخلاقیات، معاشرت اور مذہب کے تمام تقاضے بھول جاتے ہیں رنگ کم ہے، قد چھوٹا ہے، ناک چپٹی ہے، جسم بھاری ہے ،دہانہ بڑا ہے ” وغیرہ وغیرہ
الامان الحفیظ، مانا کہ مناسب جوڑ دیکھنے کے لیے کچھ چیزوں کی مطابقت دیکھنے میں کوئی قباحت نہیں لیکن لڑکی اور ماں باپ کے سامنے یوں کھلا اظہار کرنا کہاں کی تہذیب ہے؟
اب ایک نئی منصوبہ بندی آئی ہے کہ بہو خوبصورت ہونی چاہیے تاکہ بچے خوبصورت ہوں ،اب کوئی پوچھے بچے اگر آپ پہ چلے گئے تو کیا ہوگا؟
چلیں آپ بھی حسین اور بیٹا بھی حسین تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ بچے کی شکل و صورت خاندان کے کسی قبول صورتِ فرد پہ نہیں جا سکتی اور جب اللہ نے کہہ دیا کہ
اسی نے آسمانوں اور زمین کو ٹھیک طور پر بنایا ہے اور تمہاری صورت بنائی پھر تمہاری صورتیں اچھی بنائیں، اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے”(سورۃ التغابن)
یہاں تو سارا قصہ ہی ختم ہو گیا۔
لیکن نہیں ہمیں تو اپنا دماغ لڑانا ہے ہم صورت سے ہٹ کے اوصاف، تعلیم، تہذیب، قسمت، نصیب کے بارے میں نہیں سوچتے۔
مغربی معاشرے میں کسی کو برے ناموں سے پکارنا یا کسی کی جسمانی ساخت، رنگ اور کمزوری کے بارے میں کسی طور بھی بات کرنا یا مذاق اڑانا “بلینگ”
کہلاتا ہےبچوں کو پہلا سبق ہی یہ دیا جاتا ہے کہ ” کسی کی فیلنگ ہرٹ نہیں کرنی”
یوں سوچو تو ہمارے ہاں تو تقریباً ہر فرد ہی دوسرے کو یا تو bully کرتا رہتا ہے یا ہوتا رہتا ہے ،کیا ہے اچھا ہو کہ ہم بڑوں کو بھی یہ سبق پڑھا سکیں۔
بدقسمتی سے مردوں کے مقابلے میں خواتین کو باڈی شیمنگ کا سامنا زیادہ کرنا پڑتا ہے شاید اسلیے کہ اب تک بھی ہمارے ہاں کسی خاتون کی اہمیت کا پہلا پیمانہ صورت شکل ہی سمجھا جاتا ہے ۔
اُنہیں تو اپنے گھر میں ہی بہُت کچھ سننے کو مل جاتا ہے۔
جب کچھ پڑھے لکھے مردوں سے بھی ایسے جملے سننے کو ملتے ہیں تو ہنسی آئی ہے کہ “سمجھ نہیں آتا ہمارے ہاں کی خواتین کیوں بچوں کے بعد بے ڈول ہو جاتی ہیں ،آخر مغرب میں بھی تو لوگوں کے بچے ہوتے ہیں وہ تو بلکل فٹ رہتی ہیں”
عرض یہ ہے کہ مشرق کی عورت کی ساری زندگی شوہر، سسرال، گھر اور بچوں کے گرد ہی گھومتی رہتی ہے، اس کی آدھی عمر تو نہاری اور پائے پکاتے، آپ کے نخرے اٹھاتے اور رشتوں کے پیچ و خم سنبھالتے ہی گزر جاتی ہے، اُسکا نہ کوئی “می ٹائم” ہوتا ہے اور نہ کوئی فزیکل ایکٹیویٹی کے مواقع۔ گھر کے کاموں کے بعد تھک کے جو ملتا ہے کھا پی کے فارغ ہو جاتی ہے اور اکثر بچوں کا بچا ہوا کھانا بھی کسی ڈست بن کی طرح اسی کے اندر اترتا رہتا ہے، کہاں کی صحت کہاں کی فٹنس۔
اب کچھ آگاہی اور مثبت بدلاؤ آ رہا ہے لیکن یہ سمجھنے میں کافی دہائیاں لگیں گی۔
(خیال رہے یہ اُن عام خواتین کے بارے میں ہے جنہیں ملازموں کی فوج اور فرصت کی عیاشیاں میسر نہیں اور نہ اسکا یہ مقصد ہے کہ اپنا خیال نہ رکھا جائے)
اب آئیے مغرب کی عورت کی طرف، اُسکی زندگی اُسکی مخالف جنس سے ملتی جلتی ہوتی ہے۔ اُسکے کیرئیر اور اُسکے شوہر کے کیریئر کی اہمیت ایک ہوتی ہے ، بچے اگر ہیں تو مل کے سنبھالے جاتے ہیں اور گھر کے کام بھی مل کر کیے جاتے ہیں، وہ شوہر اور بچوں کے علاوہ کسی تیسرے کی ذمےداری سے بے نیاز ہوتی ہے، اکثر معاشی طور پہ خود مختار بھی ہوتی ہے۔ یہ سب چیزیں اُسے اپنے بارے میں سوچنے کا وقت اور اپنی صحت کا خیال رکھنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔
ہمارے پڑوس میں ایک گوری اپنے چند ماہ کے بچے کے ساتھ رہتی تھی،کچھ عرصے بعد اُسکا دوسرا شوہر بھی ساتھ رہنے لگا ،ایک دن پتہ چلا کہ وہ اپنی بہن سے ملنے جا رہی ہے، اور بچہ نئے ابّا کے پاس رہے گا، باہر اُسے رخصت کرتے ہوئے وہ بچے کو سنبھالتے ہوئے بات کر رہا تھا جس کہ لب لباب یہ تھا کہ ممی کچھ اچھا وقت گزار کے واپس آ جائیگی ،ہمارے کلچر میں تو یہ عجوبہ ہے ایک تو چھوٹا سا بچہ اور بلکل نیا رشتہ اور یوں امیاں بھی ایسے اکیلے اچھا وقت گزارنے جاتی ہیں بھلا، وہ بھی دِنوں کے لیے؟ ہم نے تو جب بھی دیکھے کاکے کاکیاں امیوں کے ساتھ نتھی ہی دیکھے، ہاں ابا اکثر یوں اکیلے چلے جاتے ہیں۔
اسلیے جب بھی آپ اپنی خواتین کا موازنہ مغرب سے کریں یا اُن کی فٹنس کی بابت زبان کھولیں ایک بار ضرور سوچ لیں کہ کیا آپ بھی وہ تمام ذمےداریاں اٹھانے کو تیار ہیں کیونکہ یہ موازنہ وہاں قطعاً کارگر نہیں ہو سکتا جہاں معذرت کے ساتھ مردوں کو ہل کے پانی پینے کی بھی عادت نہ ہو۔
ہم برے القابات اور باڈی شیمنگ سے اکثر اپنے پیاروں، اطراف کے لوگوں کی اور کبھی کبھی اُن لوگوں کی جن سے شاید زندگی میں دوبارہ نہیں ملیں گے اتنی دل آزاری کر جاتے ہیں جس کا مداوا بھی ممکن نہیں ہوتا۔
ہم سب کو اپنا تزکیہ کرنے کی ضرورت ہے
میں سوچوں تو مجھے بھی اپنی کچھ باتیں یاد آتی ہیں جو بے خبری میں سرزد ہوئیں، آج آپ بھی کچھ اس بارے میں سوچیے!
اہم بات یہ ہے کہ آگے کبھی یہ رویئے نہ دہرائے جائیں۔
“اے ایمان والو نہ مرد مردوں سے ہنسیں عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے دُور نہیں کہ وہ ان ہنسے والیوں سے بہتر ہو آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو کیا ہی بُرا نام ہے مسلمان ہوکر فاسق کہلانا اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں”( الحجرات آیات 11)
قرۃ العین صبا