ویمنز ڈے یعنی خواتین کا عالمی دن آنے والا ہے اسی
کی مناسبت سے مختلف پوسٹ اور اشتہار بھی نظر سے گزر رہے ہیں ،کل ایک ایسا ہی ایڈ نظر سے گزرا اور شیئر بھی کیا جس میں مختلف خواتین کو گھر ،بچوں اور اپنے پروفیشن کے ساتھ نبرد آزما دکھا کے بڑی خوبصورتی سے یہ پیغام دیا گیا کہ وہ دونوں کام کر سکتی ہیں۔
ایڈ تو بڑا اچھا لگا لیکن پیغام نے سوچ کے کئی دروازے کھول دیے۔
ایک لڑکا اور لڑکی بچپن سے اپنی پڑھائی سے معاشرے میں اپنی جگہ بنانے کا سفر ایک ساتھ ہی شروع کرتے ہیں لیکن شادی زندگی کا ایک ایسا مرحلہ ہے جہاں پہ ایک کا سفر رک جاتا ہے یا پھر کئی خانوں میں بٹ کر تعطل کا شکار ہو جاتا ہے۔
ایک نیا گھر، اس گھر کے مکینوں کی توقعات، نئے رشتے، معاشرتی رویئے پھر بچے ۔یہ ساری ذمےداریاں عورت کو بوکھلا کے رکھ دیتی ہیں، ایسے میں لڑکی پڑھی لکھی ہو تو زیادہ پریشانی سے گزرتی ہے کیونکہ پڑھی لکھی نہ ہونے کی صورت میں اسے نا صرف بہُت ساری توقعات سے دستبردار گردانا جاتا ہے بلکہ اسکو کافی رویوں کا مارجن بھی دیا جاتا ہے ۔
مثلاً وہ چیخ چلا کے شور مچا کے جھگڑا کر کے اپنے غصّے اور چڑچڑاہت کا اظہار کر لیتی ہے کہیں کہیں تمیز کی حد سے تجاوز بھی کرے تو معاشرہ اُسے جاہل کا خطاب دے کر نظر انداز کر دیتا ہے، بچوں کے پڑھنے لکھنے کی بات ہوتی ہے تو ٹیوٹر کی خدمات لے لی جاتی ہیں۔
ورک لائف بیلنس اور پروفیشنل زندگی کے قلق سے آزاد ہوتی ہے کیونکہ کیرئیر اور پڑھائی کا خانہ خالی ہوتا ہے۔
یہاں تک اگر دور اندیشی سے نہ سوچا جائے تو راوی عیش ہی عیش لکھتا ہے.
اب آ جائیں تعلیم کی جانب، جہاں تعلیم ایک لڑکی پہ شعور اور آگہی کے دروازے کھولتی ہے وہیں جینے کا رنگ ڈھنگ اور انداز بھی بدل جاتا ہے جو کہ آگے جا کے ناصرف اُسکے گھر بلکہ اُسکی آنے والی نسلوں،خاندان اور پورے معاشرے پر اثر انداز ہوتا ہے۔
پروفیشن اور پڑھائی کوئی بھی ہو ،شادی اور بچوں کے ساتھ ساتھ اس پہ غیر حقیقی توقعات کا ایک ایسا انبار ہوتا ہے جو نا محسوس طریقے سے اُسے تھکا دیتا ہے۔
یہاں عورت اگر خود سے گھر پہ رہنےکا انتخاب کرے تو اس میں بھی مسئلے ،سوالات اور اعتراضات ہوتے ہیں اور باہر نکلنے کی صورت میں دوہری ذمےداری اٹھانی پڑتی ہے اور بچوں کو خود سے الگ کرنے کی قصوروار کیفیت الگ۔
ہمارا معاشرہ ابھی تک بھی اتنا روشن خیال نہیں ہوا کہ دوسری طرف بھی توجہ دے۔ جہاں مرد کو کام سے واپس آکے ایک پروٹوکول دینے کا رواج ہے جو کہ اُسکا حق تصّور کیا جاتا ہے وہیں عورت اگر باہر سے آئے تو اُسکے یہ مراعات حاصل نہیں ہوتیں بلکہ اس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ گھر اور باہر کے دونوں کام احسن طریقے سے انجام دے
یہاں پہ سپر ویمن کا مافوق الفطرت قسم کا تصور آتا ہے
کہ وہ سب کچھ کر سکتی ہے ۔جب ساری ذمےداریاں اس کے سر ڈالتے ہوئے اُسکی پیٹھ ٹھونکی جاتی ہے اور اس کو یہ باور کرایا جاتا ہے تو وہ بھی یہ ٹائٹل حاصل کرنے کے چکر میں گھن چکر بن جاتی ہے لیکن ہے تو بلآخر انسان
جب ایک مرد وہی انسان ہو کے سب کچھ نہیں کر سکتا تو جسمانی طور پہ اس سے کمزور ہونے کے باوجود عورت یہ سب کیسے کر سکتی ہے؟
ہمیں بس یہیں اعتراض ہے۔ اگرچہ اشتہار پڑوسی ملک کا ہے لیکن ہمارا معاشرہ بھی اسی سمت پہ گامزن ہے۔
بیٹیوں کو پڑھائیں لکھائیں، پروفیشنل بہوئیں لائیں لیکن پھر انکو چولہا چکی میں جھونکنے کے بجائے خود بھی اُن کے مددگار بنیں اور اپنے بیٹوں کی تربیت بھی اس نہج پہ کریں کہ وہ اُن کی ذمےداریاں بانٹ سکیں۔
جو خود گھر کا انتخاب کرے اسکو بھی خوشدلی سے قبول کریں اور جو کام کرنا چاہے اسے بھی سپورٹ کریں۔
بے شک عورت سے زیادہ بہترین ملٹی ٹاسکر کوئی اور مخلوق نہیں ہو سکتی، جسکا ایک قدم باورچی خانے میں ہوتا ہے دوسرا اپنے کام کی ٹیبل پہ، وہ جہاں ایک طرف فیڈر بنا رہی ہوتی ہے ،ڈائپر بدل رہی ہوتی ہے وہیں آفس کی رپورٹیں اور میٹنگز بھی ترتیب دے رہی ہوتی ہے ،شوہر اور سسرال کی توقعات پہ پورا اترنے کی کوشش بھی کی رہی ہوتی ہے اور بچوں کی تربیت میں بھی جتی ہوئی ہوتی ہے
ہاں وہ سب کچھ کر سکتی ہے لیکن اسکو بھی مدد کی ضرورت ہوتی ہے وہ بہرحال ایک انسان ہے، وہ بھی تھکتی ہے، اسے بھی آرام چاہیے ہوتا ہے،
Yes she can carry both but she surely needs a lot of support from his people and the society.
کیونکہ سپر مین اور سپر ویمن صرف فلمی کردار ہیں اور اصل زندگی عام انسانوں سے بنتی ہے ۔
She Can Carry Both
(Visited 3 times, 1 visits today)