تحریر : قرۃ العین صبا
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب کسی کو دیکھ کے اور سوچ کے ذہن کے سارے چراغ روشن ہوجاتے ہوں، چشم تصور میں تتلیاں ناچنے لگتی ہوں ،اُسکا دکھ آپکی آنکھ میں آنسو لے آتا ہو ، ساری دنیا اسکے سامنے ہیچ نظر آنے لگتی ہو اور بقول شاعر
” اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں”
کی کیفیت غالب آجاتی ہو تو پھر اتنے شدید رنگ کچھ ہی عرصے میں مدھم کیسے پڑنے لگتے ہیں؟باتوں سے اور نگاہوں سے چاشنی سمٹ کے کدھر کھو جاتی ہے؟ سارے جُگنو ہاتھوں سے ایک دم کہاں پھسل جاتے ہیں؟
بات دراصل یہ ہے کہ تھیوری کے پیپر میں نمبر لینا کافی سہل کام ہے جب اک ڈور میں بندھ کے رشتوں کی پیچیدہ اکویشنز حل کرنا پڑتی ہیں تو سنبھالنے کی کوشش کے باوجود سارے گلاب ایک ایک کر کے سوکھنے لگتے ہیں اور زندگی چاہت کے نخلستان کے بجائے کوئی ریگستان معلوم ہوتی ہے جہاں مسلسل حدت اور مشقت دونوں فریقین کو تھکا دیتی ہے۔
تو پھر محبت کے ان گلابوں کو مرجھانے سے کیسے روکا جائے اور چاہت کے ان جُگنوؤں کی حفاظت کیسے کی جائے؟
سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیجئے کہ کام ختم نہیں ہوا بلکہ شروع ہوا ہے ۔
شادی کے بندھن میں بندھنے کو اکثر خواتین زندگی کے مقصد کی تکمیل سمجھتی ہیں اور مرد حضرات خود کو فاتح تصور کرتے ہیں لیکن جس نے جو قلعے فتح کیا ہے اور جس نے جو مقصد حاصل کیا ہے وہ صرف ایک سنگ میل ہے اور سفر بُہت طویل ہے۔
محبت کے اس نو تعمیر قلعہ کی مسلسل دیکھ بھال اور سجاوٹ اشد ضروری ہے ورنہ جلد ہی یہ عمارت ایک کھنڈر کا منظر پیش کرنے لگتی ہے۔
کچھ نکات ازبر کر لیں
اپنے لیے وقت نکالیں:
ہم میں سے اکثر لوگ شادی ہوتے ہی اپنے سارے شوق، ہنر،تخلیقی صلاحیتیں ،مشغلے الغرض خوشی حاصل کرنے کے سارے طریقے سمیٹ کے کسی الماری میں بند کر کے رکھ دیتے ہیں نتیجتاً ایک ہنستی کھیلتی خوشگوار شخصیت جسکی ایک جاندار مسکراہٹ مخالف کو چت کر دیا کرتی۔تھی ایک چڑچڑے،بدمزاج بیزار انسان میں بدل جاتی ہے۔ ایسا نہ ہونے دیں مشغلوں کو زندہ رکھیں، دوستوں سے رابطہ رکھیں، تھوڑے دنوں کے وقفے سے اپنی روز مرہ کی مصروفیات سے اپنے لیے وقفہ لیں، کچھ نہ کچھ نیا سیکھتے رہیں،اپنے آپ کو کسی نہ کسی صورت اپ گریڈ کرتے رہیں ۔اپنی خوشیوں کی کوئی نہ کوئی کھڑکی کھلی رکھیں تاکہ اس کا عکس آپکےاطراف میں بھی روشنی پھیلائے۔یاد رکھیں ہمارے ہر رشتے کی خوشگواری پہلے ہماری اپنی ذہنی صحت سے جڑی ہے۔
بات کریں:
کمیونیکیشن یعنی بات کرنا بے حد ضروری ہے ،ہم اکثر یہ چاہتے ہیں کہ مخالف کہے بغیر ہماری چاہ کو پہچان لے۔ یعنی
میں کچھ بھی نہ کہوں اور یہ چاہوں کہ میری بات
خوشبو کی طرح اڑ کے تیرے دل میں اتر جائے۔۔
تحفے تحائف، پھول ،چاکلیٹ،کیک ،تعریفیں اور اچھی اچھی باتیں سب ہی کو اچھی لگتی ہیں اسلیے شادی سے پہلے آپکو یہ سب بتانے کی ضرورت نہیں پڑی لیکن روزمرہ کی زندگی میں عادتوں، ادب آداب، دوسروں سے ملنا ملانا، اپنی پسند نا پسند ،اور ازدواجی تعلق میں اپنی خواہشات اور ترجیحات ایک دوسرے کو بتانا بے حد ضروری ہے کیونکہ کوئی انسان آپکے دل کا حال نہیں جان سکتا۔ ہفتے وار ایک میٹنگ کئی اُلجھی گرہیں سلجھا سکتی ہے اور اگر بات کرنا ممکن نہ ہو تو لکھنے کہ سہارا لیں، یہ میرا اپنا تجربہ ہے کئی بار اپنے مسئلے کو لکھنا ہمیں خود اپنے مسئلے اور دوسرے کی پوزیشن کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے اور دوسرے کو بھی بجائے فوری رد عمل دینے کے رسان سے پڑھنے اور سوچنے کا موقع ملتا ہے۔
اپنے رشتے کو فوقیت دیں:
اکثر بچوں اور خاندانی نظام کی مصروفیت میں میاں بیوی کا رشتہ پس منظر میں چلا جاتا ہے ۔اسکی آبیاری کے لیے ایک دوسرے کی کوششوں کو اچھے الفاظ سے سرہانے کے ساتھ ساتھ ہفتے وار میاں بیوی کو وقت نکالنے کی ضرورت ہے چاہے وہ ساتھ باہر کھانا کھانے کی صورت ہو ،چھوٹی سی ڈرائیو یا واک ہو، ایک دوسرے کے لیے اہتمام سے تیار ہونے کی شکل میں ہو یا چاہیے اکھٹے سودا سلف لانا ہی کیوں نہ ہو۔
وہ الفاظ ایک دوسرے کے لیے استعمال کریں جو منگنی اور ہنی مون پریڈ کے بعد سے متروک ہو چُکے ہیں۔محبت سے پکارے نام “ابا” اور “امّاں” کا متبادل نہیں ہو سکتے یہاں رومانس دم توڑ دیتا ہے ،یہ چھوٹی چھوٹی باتیں رشتے پہ مثبت اثر ڈالتی ہیں۔
عرصہ پہلے کہیں پڑھا تھا
You can’t have fun on the bed untill you don’t have fun out of the bed۔
الفاظ کا چناؤ:
زبان شخصیت کا تعارف اور اظہار کا دروازہ ہے ، ہر برا لفظ ایک ضربِ کاری ہے جسے ہمیشہ کے لیے دل پہ ایک نشان چھوڑ جانا ہے۔ سخن کے اس دروازے سے گالم گلوچ کی صورت کوڑا کرکٹ نہ نکلنے دیں، سخت سے سخت غصّے میں مخالف کی بری گفتگو کے باوجود اس دروازے کو خاموشی سے بند کر دینا گرچہ بے حد ضبط کا کام ہے لیکن بہُت بڑی عقل مندی ہے۔ جب ایک فریق خاموشی اختیار کرتا ہے تو دوسری طرف احساس کا دروازہ خود بخود کھل جاتا ہے یا پھر بعد میں اس پہ بات کی جا سکتی ہے لیکن جب اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے تو صورتِ حال سنبھالنا نا ممکن ہے۔
اسکے علاوہ کاٹ دار باتیں اور طنز جلتی پہ تیل کی طرح کام کرتے ہیں، اکثر لوگ دوسرے کا کمزور پہلو ایسی بحث کے لیے سنبھال کے رکھتے ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر کاری ضرب لگائی جا سکے۔ یاد رکھیں میاں بیوی کے رشتے میں دونوں ایک ٹیم ہوتے ہیں یہ کوئی اکھاڑا نہیں جہاں روز فتح اور شکست کے معرکے ہوں۔
ڈاکٹر سہیل نے ایک گرین زون ورک شاپ کے دوران دلچسپ بات کہی کہ کچھ الفاظ ایسے ہیں جن کو بحث کے وقت استعمال نہیں کرنا چاہیے مثلاً
Always, never, should ,must
یعنی “تم ہمیشہ ہی ایسے کرتے/کرتی ہو،
تم نے کبھی ایسا نہیں کیا
تمہیں یہ کرنا ہی چاہیے یا یہی کرنا ہے۔
اسطرح کے الفاظ سخت لہجے سمیت رشتہ نبھانے کی پچھلی ساری محنت اور تپیسا پہ پانی پھیر دیتے ہیں ۔
اپنے نظریات دوسرے پر مسلط نہ کریں:
جب “قبول ہے” کہا تھا تو یونہی قبول کیا تھا، یہ شرائط نہیں تھیں کہ فلاں فلاں عادت قبول ہے اور یہ یہ باتیں ہٹا دی جائیں۔ یہ سچ ہے کہ ایک عرصہ ساتھ گزارنے کے بعد اپنی کئی عادتیں بدل جاتی ہیں اور دوسرے کی بہُت سی عادتیں اپنا لی جاتی ہیں لیکن اسمیں وقت لگتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ
حیرت سے تک رہا ہے جہانِ وفا مجھے
تم نے بنا دیا ہے محبت میں کیا مجھے
اور محبت پابندی یا پنجرہ نہیں، آزادی اور سکون ہے
مسئلوں اور اختلافات کو سلجھانے کے لیے دوسرے کے مزاج کے مطابق حکمتِ عملی بنائیں۔
اسپیس:
دو لوگ ایک دوسرے کے ہمسفر ہوتے ہیں لیکن انسان اور رشتوں سے بھی جڑا ہوتا ہے اور یہ رشتے اور تعلقات آپ کے رشتے کے لیے بھی آکسیجن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک دوسرے کو سانس لینے دیں،والدین، بہن بھائی اور دوستوں کی صحبت سے تر و تازہ ہونے دیں، یہ اُنکی ذہنی کیفیت اور آپ کے اپنے رشتے کیبلۓ بھی خوشگوار ثابت ہوگا۔ ساتھ ہی ساتھ ایک دوسرے پہ حاوی نہ ہوں، انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ کبھی کبھی کچھ وقت صرف اپنے ساتھ بھی گزارنا چاہتا ہے، اسے سمجھیں اس میں میں مخل نہ ہوں۔ ایک دوسرے کی جاسوسی نہ کریں، موبائل چیک کرنے اور ہر وقت پوچھ گچھ سے پرہیز کریں۔اسپیس دیں۔
Fake it untill you make it!
ایک دوست نے پوچھا کہ تعلقات بس ٹھیک ہیں، ایک بچہ بھی ہے، نبھانا بھی چاہتی ہوں لیکن انسیت محسوس نہیں ہوتی ،مشورہ دیا کہ پھر نبھانے کی اداکاری شروع کر دیں۔ گھر میں اہتمام کریں، تیار ہوں ،معمول سے زیادہ اہمیت دیں، بحث مباحثے سے بچنے کی حتی الامکان کوشش کریں، زبان میٹھی رکھیں تھوڑے دن میں یہ اداکاری دوسری طرف بھی اثر انداز ہوگی اور ایسا ہی ہوا۔
ایک معمول سے گزرتی سست زندگی اکثر ایسے جمود کا شکار ہونے لگتی ہے اسمیں فریقین بھی بیزاری اور سستی برتیں تو بہتری کی صورت اور کم ہو جاتی ہے ۔
رشتوں کا احترام:
ایک دوسرے کے گھر والوں اور ملنے والوں کا احترام لازم ہے “تمہارے ماں باپ” “تمہارے بھائی بہن” سے مخاطب کرنا ، اُن کے لیے برے الفاظ، بے عزتی ،ہنسی ٹھٹہ اور اُن سے جُڑی منفی باتیں اُنکے پیچھے اُنہی کی بیٹی،بیٹے ،بہن یا بھائی کے سامنے بھی کی جائیں تو حق ہوں یا ناحق سیدھی دل پہ جا کے لگتی ہیں اور پھر نیوٹن کے مطابق ہر عمل کا رد عمل کسی نہ کسی طور سامنے ضرور آتا ہے۔ دوسروں کی طرف کی گئی دل آزاری اور منفی باتیں بہتر طریقے سے بھی گوش گزار کی جا سکتی ہیں۔
ایک دوسرے کے گھر والوں ،رشتےداروں اور دوستوں سے احترام کا رویہ اختیار کرنا اور اچھے انداز سے ملنا ایک دوسرے کے دل میں آپ کی قدر و منزلت بڑھا دیتا ہے۔
بیرونی مداخلت:
سب سے زیادہ تکلیف دہ بات ہوتی ہے جب ایک دوسرے کی بات کسی تیسرے شخص سے پتہ چلے۔ ہر معاملے میں باہم مشورہ اعتماد بحال رکھتا ہے۔
ہمارے ہاں ایک عام تاثر ہے کہ لڑکی ہر بات اپنے میکے میں بتانا اپنا فرض سمجھتی ہے اور اکثر وہاں سے دیے جانے والے ہر الٹے پلٹے مشورے پہ عمل کرنا فرض عین، یہی صورتِ حال کچھ مرد حضرات کی بھی ہوتی ہے جو اپنے کمرے کی ہر بات گھر والوں اور دوستوں سے کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں اور آگے سے دی گئی ہدایات پہ بھی مکمل عمل درآمد کیا جاتا ہے نتیجتاً وہ جو ایک دوسرے کا لباس کہے گئے ہیں وہ ایک دوسرے کا پیراہن تار تار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے حالانکہ ہوتا کچھ یوں ہے کہ خاتون کا میکہ آہستہ آہستہ بہن بھائیوں کی شادیوں اور والدین کے اختیارات معزول ہونے کے بعد بھابیوں کا گھر بن جاتا ہے اور یہاں صاحب کے والدین کی توانائیاں وقت کے ساتھ ختم ہو جاتی ہیں اور باقی لوگ اپنی زندگیوں میں مشغول ہوتے ہیں تو جب تک پلوں کے نیچے سے بہُت سا پانی گزر چکا ہوتا ہے اور جنہیں لباس کی طرح قریب ہونا چاہیے اُنکے دل قربت کے باوجود بہُت دور جا چکے ہوتے ہیں ۔
حدود کا تعین:
اوپر لکھے سارے نکات وہاں اپنانے کے لیے ہیں جہاں رشتہ آپ کی بنائی ہوئی حدود کے اندر ہو۔حدود کا تعین بے حد ضروری ہے اور جہاں حدود پار کی جائیں وہاں رشتہ سوائے ازیت کے کچھ نہیں۔یاد رکھیے! آپ بہُت اہم ہیں۔ جہاں رشتے کے نام پہ مالی، زبانی یا جسمانی تشدد کیا جاتا ہو وہاں حکمت کے ساتھ ہمت درکار ہے، سوچیں ،سمجھیں ،حدود کا تعین کریں، عزتِ نفس کو فوقیت دیں، سکون کی تلاش میں ہیں تو کبھی کبھی وہ بھی ہمت، محنت اور سخت جد و جہد مانگتا ہے۔
آخری بات یہ کہ ایک ہمسفر پہ اپنی ساری خواہشات، مرادیں اور توقعات کو پورا کرنے کا بوجھ نہ ڈالیں ، زندگی خوبصورت اور پرسکون ہونا چاہیے پرفیکٹ نہیں۔
محبت کے مسافر زند گی جب کا ٹ چکتے ہیں
تھکن کی کر چیاں چنتے
وفا کی اجر کیں پہنے
سمے کی رہگزر کی آخری سر حد پہ رکتے ہیں
تو کوئی ڈوبتی سانسوں کی ڈوری تھا م کر
دھیرے سے کہتا ہے
یہ سچ ہے نا !
ہماری زند گی اک دو سرے کے نام لکھی تھی
دھند لکا سا جو آنکھوں کے قریب و دور پھیلا ہے
اسی کا نام چاہت ہے !
تمہیں مجھ سے محبت تھی
تمہیں مجھ سے محبت ہے !
محبت کی طبعیت میں
یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے…
تمہیں مجھ سے محبّت ہے!
(Visited 1 times, 1 visits today)