کیمپنگ کہانی(دوسرا حصہ)

کیمپ میں رات
کیمپ میں رات بہُت مختلف ہوتی ہے!
سب خوابوں اور فینٹسی سے مختلف جو آپ نے تصور کیا ہوتا ہے ،جب آپ کیمپنگ کے بارے میں سوچتے ہیں تو جھیل کے بہتے پانیوں کی نیلاہٹ کو سوچتے ہیں، کناروں پہ پیروں کے نیچے سے پھسلتی ریت کی ٹھنڈک کو سوچتے ہیں، گیلی گھانس کی مہک اور ہوا سے جھومتے پتوں کو سوچتے ہیں، رات میں سلگتی لکڑیوں اور ٹھنڈ میں مسرت دیتے شعلوں کی حدت کو سوچتے ہیں, اگر نہیں سوچتے تو جنگل بیابان میں اندھیری وحشت کو نہیں سوچتے، یہ خیال نہیں کرتے کہ جب آپ اپنے ٹھکانے اور شہر سے اتنے دور آ جاتے ہیں تو شہری روشنیاں اور سڑک کی بتیاں بھی وہیں رہ جاتی ہیں۔
رات میں قد آدم ہرے بھرے درخت بھی پراسرار معلوم ہوتے ہیں اور پتوں سے چھو کے سرسراتی ہوا کی آواز بھی آسیب زدہ سی لگتی ہے۔جلتی لکڑیوں کی روشنی ناکافی ہوتی ہے، اُن سے پرے ٹمٹماتی بیٹری سے چلنے والی صرف لالٹینیں ہوتی ہیں اور نامانوس جگہ کا اندھیرا اور ان دیکھا خوف۔
اور یہ سب ہم جب سوچ رہے تھے جب اپنے گھر سے تین گھنٹے کی مسافت پہ دور مسکوکا گرونڈی لیک کے کیمپ گراؤنڈ میں شدید اندھیری اونچی نیچی روڈ سے گزرتے ہوئے آس پاس کے خاموش جنگل نے ہمارا استقبال کیا۔
یہ سب ہم کیمپ سائٹ کے آفس کے باہر کھڑے سوچ رہے تھے،
یہ کہاں آ گئے ہم!
شاید ہم دن دن میں پہنچ جاتے اور وہیں شام کرتے تو یہ اندھیرا اتنا محسوس نہیں ہوتا لیکن ہمیں اب دیر ہو چکی تھی۔اکمل کیمپ آفس میں انٹری کروانے گئے تھے اور ہم چاروں اپنی منہ تک بھری گاڑی میں بیٹھے تھے جو کہ ہماری پہلی اور اناڑی کیمپنگ کی غماز تھی۔
دل ہی دل میں تھوڑے سے خوف زدہ تھے۔بچوں نے داخل ہوتے ہے
“Beware of Animals”
کا بورڈ بھی دیکھ لیا تھا جس پہ چھوٹے جانوروں کے ساتھ ایک عدد گرزلی بیئر بھی بنا ہوا تھا اور اُسکا ذکر بھی غالباً جوش یا خوف میں با آواز بلند کیا جا چکا تھا اور نتیجتاً پانچ سالہ یحییٰ کو اچانک گھر یاد آنے لگا تھا۔
ہم سب اُسکی ریں ریں بند کروانے کی کوشش میں ادھر اُدھر کی باتیں کر رہے تھے(اگرچہ اندر سے ہم سب بھی تھوڑے تھوڑے سے ریں ریں کر رہے تھے) ،بچے اُسےجواد انکل صنوبر آنٹی اور اُنکی فیملی کے دھیان میں لگا رہے تھے جو اکمل کے دیرینہ دوست اور اس ویروانے میں ہمارے کیمپ کے ساتھی تھے، درحقیقت اُنکی بدولت ہی یہ کیمپنگ ممکن ہوئی تھی اور یہ سہارا بھی تھا کہ اس بیابان میں کچھ آشنا چہرے بھی موجود ہیں۔
دل میں تھوڑا سا قلق بھی تھا کہ جلدی پہنچ جاتے تو شاید یہ انٹری اتنی وحشت زدہ نہ کرتی لیکن اب تو دیر ہو چکی تھی اور دیر کیوں ہوئی تھی اسکے لیے تھوڑا پیچھے چلتے ہیں۔
گرمیوں کی حدت جیسے ہی کینیڈا کی برفوں کو زیر بار کرتی ہی اور ہجرت کرنے والے پرندے واپس لوٹنے لگتے ہیں تو سردی سے اکتائے ہوئے اور شدید قنوطیت کا شکار لوگ گھروں سے فرار ہونے کے لیے بیںقرار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گرمیوں میں انٹاریو کے کاٹیجز، ہوٹلوں اور کیمپ گراؤنڈز میں جگہ تلاش کرنا جوئے شِیر لانے کے مترادف ہے، اگر جگہ مل بھی جائے تو من پسند نہیں ملتی۔
ہم دیسی لوگوں کے ہاں پلاننگ کا فقدان ہے ،پلاننگ اور پنکچویلٹی یعنی منصوبہ بندی اور وقت کی پابندی ہمارے لیے کسی آزمائش سے کم نہیں۔ سال بھر کی پلاننگ تو دور کی بات ہے، ہماری نوے فیصد قوم سے اگر پوچھا جائے کہ اگلے دن کا کیا پلان ہے تو وہ ایسے میں
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں
قسم کا کوئی شعر سنا کے
آپ کو ٹرخا دے گی۔
وقت کی پابندی کا یہ حال ہے کہ قسمت سے کسی دعوت میں ایک پارٹی وقت پہ پہنچ جائے تو بعد میں آنے والوں کو وہ بقیہ وقت یوں اترا اترا کے دیکھتی ہے اور یوں بھگوبھگو کے بعد میں آنے والوں پہ طنز کرتی ہے جیسے کوئی معرکہ سر انجام دے دیا ہو۔
لیکن مغرب میں بسنے والے منصوبہ بندی پہ یقین رکھتے ہیں, یہاں آنے والے سال کے منصوبے، بڑی خریداریاں، چھٹیاں، گھومنے پھرنے کا بجٹ اور مقامات مہینوں پہلے سے بک کر لیے جاتے ہیں ، یہاں چھوٹے موٹے ڈنر کی دعوت بھی مہینہ بھر پہلے سے دے دی جاتی ہے تاکہ آپ اپنے کیلنڈر بلاک کر لیں اور کوئی اور پلان ہو تو ذہن میں رہے کہ فلاں تاریخ کو آپ پہلے سے ہی مدعو ہیں۔ شروع شروع میں جب افطار پارٹی کا کوئی بلاوا رمضان سے مہینہ بھر پہلے موصول ہوا اور عید کی دعوتیں رمضان سے پہلے دی گئیں تو بڑی حیرت ہوئی کہ ابھی سے؟
لیکن پھر سمجھ آیا کہ اسمیں کیا حکمت ہے ،میزبان اور مہمان اپنا شیڈول پرسکون ہو کے پلان کر سکتے ہیں۔
جو نہیں آ سکتا وہ بھی آئیں بائیں شائیں اور ٹال مٹول کرنے کے بجائے صاف بتا دیتا ہے۔
اس سے میزبان کو مہمانوں کی صحیح تعداد کا اندازہ ہو جاتا ہے ، کھانے کا انتظام اسی حساب سے کیا جاتا ہے اور میزبان چاہے تو آپ کی جگہ دوسرے احباب کو مدعو کر سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دو ایونٹس کی تاریخیں آپس میں نہیں ٹکراتیں اور آدمی خواہ مخواں کی دل برائیوں سے بچا رہتا ہے کہ ایک چھوڑ کے دوسرے کو اہمیت دی گئی۔
الغرض زندگی میں تھوڑی سی منصوبہ بندی کے بہُت سارے فائدے ہیں اور اچھی باتوں کو اپنانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
اور ہم بھی کچھ اچھی باتیں اپنا چُکے تھے۔
کیمپنگ کا ارادہ ہو چکا تھا، کیمپ بھی کچھ ریسرچ کے بعد خرید لیا گیا تھا کیونکہ ظاہر ہے کہ ایک خیمے کے بغیر خیمہ زنی نا ممکن ہے۔
یہاں یہ بات پتے کی ہے کہ کیمپنگ سے تعلق رکھنے والا سارا سامان عموماً سردیوں میں بہتر اور کبھی کبھی حیرت انگیز قیمت پہ مل جاتا ہے اور اکثر گرمیوں میں مہنگا ہونے کے ساتھ ساتھ عدم دستیابی کی مشکل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اسلیے اگر آپ کا گرمیوں میں کیمپنگ کا پلان ہو تو برف کے موسموں میں بڑی بڑی چیزوں کی ڈھونڈ شروع کریں مثلاً، خیمہ، انفلیٹیبل یعنی ہوا بھرنے والے گدے، ترپال، پورٹیبل گرل، پورٹیبل چولہا، درخت سے ٹنگ جانے والا مشکیزہ(جی ہاں اس تجربے میں آپ کو بارہا پرانے زمانے کی یاد آئے گی) اور
Hammock
یعنی درختوں کے درمیان لٹک جانے والا جھولا جس پہ لیٹ کے “گھٹا گھن گھور گھور” گاتے ہوئے آپ تھوڑی دیر بھول جائیں کہ پیچھے گھر کے جھمیلوں میں آپ کون کون سے بل چھوڑ آئے ہیں،کرائے یا مورٹگیج کی کونسی تاریخ ہے، آفس کی کونسی رپورٹ ڈیو ہے، گاڑی کی سروس کب کروانی ہے ،انشورنس کے پیسے کب بینک سے نکلنے ہیں وغیرہ وغیرہ تو برفوں کے موسم میں ان سب چیزوں پہ نظر رکھیں ،چھوٹی موٹی چیزیں تو وقت پہ بھی خريدی جا سکتی ہیں۔
پلاننگ تو کر لی گئی تھی اور ہم بھی اب کچھ مغرب زدہ دیسی ہو چُکے تھے تو اپنی دعوتوں ،افطار پارٹیوں اور عید ملن کی تاریخیں اب کافی پہلے طے کر لیتے تھے اور مہمانوں کو قدرے پہلے بلاوا بھی دے دیتے تھے لیکن کیمپ گراؤنڈ کی پیشگی بکنگ میں فی الحال سب سے بڑا مسلہ کووڈ تھا۔
بار بار بڑھتے کیسز کی وجہ سے ہر تھوڑے دن بعد لاک ڈاؤن در پیش تھا ، کب پابندیاں لگ رہی ہیں کب کھل رہی ہیں کوئی نہیں جانتا تھا ایسے میں اگر پیشگی بکنگ کروالی جاتی تو پابندی کی صورت میں پیسے پھنس جانے تھے اور نہ کروانے کی صورت میں جگہ ملنا مشکل تھی۔
اسکے علاوہ صرف ایک حل بچتا تھا اور وہ تھا کہ گرمیوں کی چھٹی کے دنوں میں کچھ تاریخیں ذہن میں رکھی جائیں اور ان تاریخوں میں صبح اٹھ کے اونٹاریو پارکس کی ویب سائٹ چیک کی جائے۔ کیونکہ کافی لوگ کسی وجہ سے بکنگ کینسل کر دیتے ہیں جو کہ سسٹم میں نظر آ جاتی ہے۔اب اگر جگہ آپ کے مطلب کی ہے تو آپ الصبح بک کر لیں ورنہ وہ بھی ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔یہ ڈھونڈ کا کام جواد بھائی نے سمبھالا،اسمیں بس ایک مسلہ یہ تھا کہ جیسے ہی
صبح بکنگ کنفرم ہو آپ نے دوپہر میں نکل جانا ہیں۔ہوٹل کی طرح عموماً کیمپ سایٹس پہ بھی چیک ان اور چیک آؤٹ ٹائم ہوتا ہے لیکن کیونکہ یہ دو سے تین دن کا پلان ہوتا ہے تو آپ فوری طور پہ نہ بھی پہنچ سکیں پھر بھی تفریح کے لیے وقت کافی مل جاتا ہے۔
تو ہم بھی اِنتظار کرتے تھے کہ اگست کی آخری تاریخوں میں کوئی جمعے کی صبح ایسی ہوگی جب ہمارے نام کیمپنگ کا قرعہ نکل آئے گا۔
اور پھر ایک صبح اچانک گھر میں ایک شور مچ گیا
بچے گرمیوں کی چھٹیوں کے خمار میں تھے سو لمبی نیند سوتے تھے، میاں صاحب کا حسبِ معمول آفس تھا لیکن اس دن سحر ہونے کے ساتھ گھر میں کھلبلی سی مچ گئی تھی
“ہم کیمپنگ پہ جا رہے ہیں” اعلان ہوا!
عین گرمیوں میں، رش کے ٹائم پہ مناسب جگہ اور قیمت میں بکنگ مل گئی تھی
ہم کینیڈا میں اپنی پہلی کیمپنگ پہ جا رہے تھے
قرعہ نکل آیا تھا!
(باقی آئندہ)
پہلا حصہ پڑھنے کے لیے لنک یہ رہا

(Visited 1 times, 1 visits today)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *