آج کاروانِ شعر و سخن کے مشاعرے میں پڑھی گئی ایک نظم)
کوئی معافی تلافی نہیں چاہیے
کوئی جملہ اضافی نہیں چاہیے
نہ منت،مرادیں، ،خواہش ارادے
جو پورے نہ ہو سکیں نہ وہ وعدے
نہ سنہرے محل بنانے کے کوئی خواب
نہ پیسے کی اندھی دوڑ کے یہ سراب
نہ خلوص کے رشتوں پہ بناوٹ کے تڑکے
نہ جھوٹے لہجوں میں پروئے ہوئے کمخواب
ایسا کچھ بھی کہیں بھی نہیں چاہیے
اور شاید کسی کو بھی نہیں چاہیے!
ہمیں تو بس اخلاص رشتوں میں لوٹا دو
ایک مہربان مسکراہٹ سے دنیا سجا دو
بس ایک دو لوگ ہوں جن کے مہرباں کاندھے
پریشان آنسوؤں کا کبھی بوجھ سہ لیں
سارے نہیں بس چند ایک رشتے
جن سے حال دل کھل کے ہم کہہ لیں!
زیادہ نہیں بس دو چار ہوں یار
جن کے ساتھ بیٹھیں تو ہنسی کی صدا میں
کھوکھلے پن کا کوئی احساس نہ ہو
ساتھ جو تھوڑا سا بھی اگر وقت گزرے
تو بے وجہ دل یونہی اداس نہ ہو
سونے کے نوالے
چاندی کی رکابی
کوئی جملہ اضافی
کوئی معافی تلافی
کسی گمشدہ خزانے کی چابی
نہیں چاہیے!
بس لوٹا دو چند چیزیں جو گم گئی ہیں
مروت، اخلاص ،دوستی ،محبت
سکون، نرم لہجے، ،مہربانی، صداقت
کہ زیست کی دوڑ میں ایک سانحہ ہو گیا ہے
کہ وہ جو درد کے رشتے سے بندھا تھا
جس سے خوشی کا ایک سلسلہ جڑا تھا
چکاچوند اور تصنع کی تیز روشنی میں
جو انسان تھا وہ کہیں کھو گیا ہے!
قرۃ العین صبا
New Year Resolution
(Visited 6 times, 1 visits today)