دو ہزار تین جنوری کی بات ہے کہ اپنے کینیڈین امیگریشن انٹرویؤ کے سلسلے میں کراچی سے اسلام آباد جانا ہوا۔کام کے بعد گھومنے پھرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ کراچی والے تو یوں بھی گرمی کے علاوہ ہر موسم کو ترسے ہوئے ہوتے ہیں ،سردی بھی چند دنوں کی مہمان ہوتی ہے اسلیے اسلام آباد کا دھند زدہ موسم بہُت فسوں خیز معلوم ہوتا ہے ،کراچی سے اسلام آباد تک آئیں اور ملکہ کوہسار کی قدم بوسی نہ کی جائےتو لگتا ہے جیسے کوئی گستاخی سرزد ہو گئی۔
ڈرائیور کم گائیڈ کے ساتھ مری اور نتھیا گلی کی طرف عازمِ سفر ہوئے۔
یوں تو ملکہ کوہسار کا دیدار پہلے بھی ایک دو بار ہو چکا تھا لیکن گرمیوں میں ،سردی کے موسم میں یہ پہلا تجربہ تھا اور کراچی والوں کے دلوں میں برف دیکھنے کی خواہش منہ زور تھی( کسے پتہ تھا کہ آگے کی زندگی برف زاروں میں ہی گزرنی ہے).مری میں ٹھنڈ تھی لیکن کہیں کہیں برف پڑ کے پگھل چکی تھی جسے ہم حسرت سے دیکھتے تھے۔
نہ برفوں کے مزاج سے واقف تھے نہ احتیاط برتنے کا خیال تھا، ایک جگہ بلیک آئس پہ پھسلنے کا بھی اتفاق ہوا ،دماغ کے کسی گوشے میں دھیان تک نہ تھا کہ یہ برف پہ پھسلنا کتنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، اللّٰہ تعالیٰ نے خیر رکھی اسلیے اسوقت اسکو بھی ایڈونچر سمجھ کے انجواۓ کیا۔
ایک جگہ غالباً نتھیا گلی کے قریب کہیں بہُت ساری ان چھوئ برف مل گی، اوپر کی طرف شاید کوئی گیسٹ ہاؤس یا پرائیویٹ پراپرٹی تھی اور اسلیے یہاں کی برفوں کو ابھی تک کسی ٹورسٹ کے قدموں نے نہیں چھوا تھا۔ ہماری تو گویا عید ہو گئی، خُوب دل بھر کے برف سے کھیلا۔ ڈرائیور نے شاید ہمارا شوق بھانپ لیا۔ واپسی کا قصد کیا تو اس نے شوگران جانے کی پیشکش کر دی۔
ہمارے ناقص علم کے مطابق کاغان، شوگران اور شمالی علاقہ جات عموماً سردیوں میں بند ہو جاتے ہیں لیکن گائیڈ صاحب کا کہنا تھا کہ راستہ کھلا ہے ہم آسانی سے پہنچ جائیں گے، ہمیں بھی جوش آیا کہ مزا آئے گا۔
سفر شروع ہوا، بل کھاتی پہاڑیوں اور مرغزاروں سے گزرتے ہوئے شوگران پہنچے تو ہر منظر برف سے ڈھکا ہوا تھا ،سہ پہر شام سے گلے مل رہی تھی، ،ہماری تھکن میں خوشی بھی شامل تھی۔
ڈرائیور نے اسی ہوٹل کا ذکر کیا جہاں سے ہم پہلے ایک بار گرمیوں میں نامراد لوٹے تھے کیونکہ وہاں کوئی کانفرنس چل رہی تھی غالباً پائن ہوٹل کر کے کچھ نام تھا اور وہ شوگران کی ایک شاندار ہوٹل تھی جو دو ہزار پانچ میں زلزلے کی نظر ہو گئی ۔ہم کھانے پینے کے پلان بنا رہے تھے کہ جاتے ہی گرما گرم سوپ آرڈر کریں گے، برف کا مزا دوبالا ہو جائیگا پھر کھانا منگوائیں گے۔
ڈرائیور نے گاڑی نیچے ایک آباد قصبے سے نکالی تو شاید ازراہِ مروت پوچھا ، کچھ لینا تو نہیں ہے آپ کو بازار سے اوپر شاید نہ ملے، ،ہمیں یہ “نہ ملنا” تھوڑا کنفیوز کر گیا ۔ویسے ہمیں تو بس گھومنا پھرنا تھا اور کھانا پینا تھا اور جو شوگران ہمیں یاد تھا وہاں کم از کم عام دکانیں اور استعمال کی ضروری چیزیں تو موجود ہی تھیں لیکن جو آگے آنے والا تھا ہم اس سے قطعاً نابلد تھے۔
گاڑی شوگران پہنچی تو لگا جیسے قصبے پہ کسی جادو کا اثر ہے، ، پہاڑوں اور درختوں پہ برف کی سفیدی تو دور دور تک دکھائی دیتی تھی لیکن لوگ ندارد۔
گاڑی سے اُترے تو ہوٹل کو بھی سنسان پایا، یہاں برف وافر تھی جب تک کمروں کا انتظام ہوا ہم نے ایک بار پھر برفوں کے مزے لِیے، اب سوچوں تو جھرجھری آتی ہے ۔
جگہ جگہ برف آئیساکلز کا روپ بھی دھار چکی تھی یعنی برف کی نوکدار کیلیں جو در و دیوار سے برف ٹپکنے کے دوران بن جاتی ہیں اور پھر ایک دم ہی گر جاتی ہے ،یہ نوکدار بھربھری سلیں کافی خطرناک ہوتی ہیں جو اسوقت ہمیں بلکل نہیں پتہ تھا شام کی زردی برف میں گھلنا شروع ہوئی تو جیسے کچھ اندھیرا اندر بھی اترنے لگا ۔
سوپ کا آڈر دیا گیا تو پتہ چلا کہ ابھی تو کچن بلکل خالی ہے آپ کھانے کا آرڈر ابھی دے دیں جس کا سامان ہمارا بندہ نیچے سے لائے گا اور ہم آپ کو پکا کے دیں گے، نیچے وہی قصبہ تھا جو ہم دیکھتے ہوئے آئے تھے۔ اب کیفیت تھوڑی عجیب ہونا شروع ہوئی۔
سونے پہ سہاگہ کہ بجلی اور گیس بند تھی ،اسلیے نہ روشنی تھی نہ گرم پانی کا کوئی سلسلہ۔
قِصّہ یہ تھا کہ کیونکہ سردیوں میں سیاح یہاں کا رخ نہیں کرتے( سوائے کچھ بیوقوفوں کے جو ہم بن چُکے تھے) اور ادھر کا سارا کاروبار ہی آنے والوں کی بدولت چلتا ہے تو مقامی لوگ سب کچھ بند کر کے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے اور پھر گرمیوں میں واپس آتے ہیں۔
دن ویسے ہی بہُت چھوٹے تھے اور کچھ بجلی کی عدم دستیابی اور ویرانی، بہُت جلد ہر چیز کو اندھیرے نے ڈھانپ لیا۔ شام گہری ہوتے ہی وہ ٹھنڈ شروع ہوئی کہ نانی امّاں یاد آ گئیں، یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے اندھیرے فریزر میں بند کر دیا ہو، درجہ حرارت مری میں ہی منفی چار تک پہنچ چکا تھا تو شنید ہے کہ شوگران میں اس سے مزید کم ہی ہوگا۔ کپڑوں کی دو تین تہوں کے بعد اپنی جیکٹوں،ٹوپوں، دستانوں اور موزوں، سمیت ہوٹل کے دو کمبلوں کے تلے بھی سردی سے تنگ تھے۔باتھ روم جانے کا تصّور ہی سوہان روح تھا اس پہ یخ بستہ پانی کا استعمال ایک اور امتحان، تکلف سے بھی نل کھولتے تو جیسے ایک برفیلی ازیت ہاتھوں کو چھو جاتی۔ہوٹل میں ایک اور فیملی کہیں سے آن بھٹکی، اُن کے ساتھ چھوٹے بچے بھی تھے،سنسان اندھیرے میں کچھ آوازیں آئیں تو عمارت کی ویرانی
اور سکوت ٹوٹا۔
ہم سب بستروں میں منہ تک دبے ہوئے تھے کہ دروازے پہ دستک ہوئی، لال ٹین کی ٹمٹماتی روشنی میں کھانا آیا تھا ،ساتھ میں غالباً ایک کوئلے والا ہیٹر تھا، ہم جو راستے میں چکن کارن ،ہاٹ اینڈ ساور سوپ اور چائنیز کے خواب دیکھ رہے تھے سب بھول چکے تھے۔ اسوقت چکن کی گریوی اور گرما گرم روٹیاں کسی من و سلویٰ کی مانند تھیں جو فقط ہمارے لیے باقاعدہ سودا سلف لا کے پکایا گیا تھا۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ کھانا کھانے کے لیے بستر سے نکلنا، دستانے اُتارنا اور ہاتھ دھونا بھی ضروری تھا، لرزتے کپکپاتے جیسے تیسے جلدی جلدی کھانا کھایا اور دوبارہ بستر میں غڑاپ ہو گئے ۔
ہیٹر اور لالٹین احتیاطاً بجھانا ضروری تھا، اب دوبارہ وہی اندھیرا اور وہی رات۔ وہ رات ہماری زندگی کی طویل ترین راتوں میں سے ایک تھی، ہر تھوڑی دیر بعد لگتا اب کافی وقت گزر گیا ہے پھر وقت دیکھتے تو کبھی سات تو کبھی آٹھ بجے ہوتے ایک بار اونگھ لے کے اٹھے تو لگا اب تو شاید رات کے تین چار بجے ہونگے وقت دیکھا تو گیارہ بجے تھے
الغرض یونہی سوتے جاگتے کانپتے اونگھتے بلآخر رات گزر ہی گئی۔
صبح رات کے بر عکس بے حد اُجلی اور خوبصورت تھی،
برف زاروں پہ دھوپ بکھر گئی تھی اور درجہ حرارت بھی خاصا بہتر تھا لیکن شوگران میں مزید رکنے کے خیال سے ہم کل رات ہی توبہ کر چکے تھے، ناشتے کے بعد سامان باندھا اور اسلام آباد آ کے دم لیا۔
بلیو ایریا کی رونقوں میں واپسی کا جشن منایا، سردی کے مزے بھی لیے، سوپ بھی پیا اور بعد میں ہمارے ڈرائیور صاحب نے کابلی پلاؤ کے ساتھ ہماری الوداعی بھی دعوت بھی کی۔
یہ سب ایک عرصے بعد مجھے کیوں یاد آیا اور اس روداد کو قلمبند کرنے کا خیال کیسے آیا۔
مری کے افسوسناک حادثے نے آج یہ سرد یادیں تازہ کردییں۔ حادثہ تو اپنی جگہ درد ناک ہے لیکن اس سے زیادہ تکلیف دہ تبصرے اُن لوگوں کے ہیں جو رہ رہ کر گزر جانے والوں کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔
پتہ تھا تو کیوں گئے؟
والدین بچوں کے آگے کیسے مجبور ہو جاتے ہیں جو یوں بیوقوفوں کی طرح نکل پڑے؟
اب ایسا بھی کیا برف دیکھنے کا شوق کہ بلا سوچے سمجھے چل پڑے کہ دیکھا جائے گا!
پیارے لوگو!
مرنے کی کسی کو بھی خواہش نہیں ہوتی اور اپنے بچوں کو سرد دوزخ میں اپنے سامنے بے بسی سے مرتا دیکھنے کی ازیت کی چاہ کون کر سکتا ہے
وہ بے خبر تھے!
ہماری قوم اور ہمارا نظام اپنی مدد آپ کے تحت چل رہا ہے، بجلی نہیں آتی تو لوگ یو پی ایس لگا لیتے ہیں، گیس نہیں آتی تو الیکٹرک کے چولہے اور گیس بوسٹر لگوا لیتے ہیں، پانی بند ہوتا ہے تو ٹینکر دلوانا شروع کر دیتے ہیں جہان بنیادی سہولتوں کا بار خود اٹھانا پڑے وہاں تفریح کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں اور جیبیں متحمل نہیں، لوگوں کو جب جیسے موقع ملتا ہے بچوں کی خوشی کے احساس سے نکل پڑتے ہیں۔
جن کا برف سے کبھی سابقہ نہیں پڑا وہ اس کے مزاج سے بھی واقف نہیں، اُنکے لیے آگاہی صفر ہے۔لوگوں کے گمان میں یقیناً ایسا نہیں ہوگا کیونکہ ہر سال ہی لوگ جوق در جوق برف باری دیکھنے مری جاتے ہیں اور ایسا حادثہ کبھی سننے میں نہیں آیا ۔دوسری طرف سوشل میڈیا اور مواصلات کے جدید نظام کے باوجود یہ بھی ایک سانحہ ہے کہ اُن تک کسی قسم کی مدد نہیں پہنچ سکی۔
لوگوں کو یوں مرنے والوں کو الزام دیتا دیکھ رہی ہوں تو سوچ رہی ہوں کہ ہم بھی تو سالوں پہلے اپنے ڈرائیور کی باتوں میں آ کر یونہی چل پڑے تھے۔ہم جاہل نہیں تھے لیکن برف موسموں کی سنگینیوں سے نا واقف تھے اور علاقے سے قطعاً نابلد۔ہمارے پاس رہنے کی جگہ، کھانا اور گرم کپڑے تھے پھر بھی رات کاٹتا محال تھی۔ وہ رات اللّٰہ نے گذروا دی بس شاید اسلیے گزر گئی ورنہ جس شہر سے سرد موسم میں مقامی لوگ خود ہجرت کر جاتے ہوں وہاں جانا کہاں کی عقل مندی تھی۔
جب کچھ ہونا ہوتا ہیں تو عقلیں سلب ہو جاتی ہیں،جانے والوں کو صلواتیں سنا کر اُنکے لواحقین کی مزید دل آزاری نہ کریں اور خدارا اُنکی ویڈیوز شیئر کرنے سے اجتناب کریں۔
دعا ہے کہ ہمارا نظام اس قابل ہو جائے کہ ہم اپنے لوگوں کو بروقت امداد پہنچا سکیں۔جن لوگوں نے ایسے موقع پہ اپنے طور پہ اُنکی مدد کی اللہ انکو بہترین اجر دے اور جنہوں نے مصیبت زدہ لوگوں کی حالت سے فائدہ اٹھایا، ناجائز منافع خوری کی اور کچھ نے سفاکی کی مثال قائم کرتے ہوئے مرضی کے کرائے نہ ہونے کے سبب جگہ تک دینے سے انکار کر دیا وہ بس اللّٰہ کے غضب سے ڈریں۔
اللہ گزر جانے والوں کی مغفرت فرمائے اور اُن کے گھر
والوں کو صبر دے، آمین
قرۃ العین صبا
*
Photo: Muree 2003
ایک طویل سرد رات کا قصہ!
(Visited 1 times, 1 visits today)